معاشرے کا المیہ

یکم مئی مزدوروں کا عالمی دن ہے۔جو کہ ہر سال بڑے تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے۔ پورے ملک میں چھٹی کی جاتی ہے۔ لیکن حیران کن طور پر جن کا عالمی دن ہے وہ بیچارے اس دن بھی فٹ پاتھ پر بیٹھے مزدوری کی راہ تک رہے ہوتے ہیں۔ اس سے بڑی اور کیا معاشرے کی منافقت ہو سکتی ہے۔اس دن کی مسلمہ حثیت تو اغیار نے طے کی ہے۔ لیکن اسلام میں تو مزدور کے حقوق بہت پہلے طے کر دیئے گئے تھے۔ایک مزدور کے لئے اس سے بڑھ کر حوصلہ افزاء اور مسحور کن احساس کیا ہو سکتا ہے کہ مزدوری کرنے والے کو اللہ کا دوست قرار دیا جاتا ہے۔اس سے بڑھ کر دنیا کو کوئی ایوارڈ مقابلہ نہیں کر سکتا تمام ایوارڈ اس سے ہیچ ہیں۔
اسلام میں ملازم ، خادم، مزدور تمام انسان برابر ہیں۔جیسا کہ شاعر نے خوب کہا ہے کہ
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
جس طرح مالک اور ملازم ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر اپنے رب کی عبادت کر سکتے ہیں۔اسی طرح سے ایک جگہ اکٹھے بیٹھ کے کھانا بھی کھا سکتے ہیں۔اکثر تصاویر یا ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہیں جہاں پر ملازم یا ملازمہ ایک سائیڈ پر ہوتے ہیں باقی فیملی کھانے سے لطف اندوز ہو رہی ہوتی ہے وہ ملازم یا خادمہ حسرت و یاس کا مجسمہ بنےنظرآرہےہوتےہیں۔اسلام میں ملازمین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ پر ہم اس حکم کی پا سداری نہیں کر رہے ہیں۔
چاہے وہ جاگیر دار ہو، صنعت کار ہو، دوکاندار ہو، ٹھیکیدار،یا کسی منڈی کا پتھیار دار سب مزدور کا استحصال کرتے ہیں۔
ابن ماجہ میں ہے” اپنے خادموں اور ملازموں پر اپنے اختیارات کو غلط استعمال کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا۔
اسلام نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو۔
رب کی ناراضگی اس میں بھی ہے کہ کسی مزدور کو مزدوری پر لگایا اور اس سے پورا کام لیا مگر اس کے بعد اسے مزدوری نہ دی۔
ہم میں سے کتنے ہیں جو اس امر کا خیال رکھتے ہیں؟
جامع ترمذی میں مزکور ہے کہ خادم اور نوکر کا قصور معاف کرو اگرچہ وہ ایک دن میں ستر دفعہ قصور کرے
جس انسان کا دل سخت ہوتا وہی اپنے ملازمین اور ماتحتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتا ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں گھریلو ملازمین کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے سوچ کر ہی سر شرمندگی سے جھک جاتا ہے۔
مزدوروں کا عالمی دن ہو اور مزدور اس دن بھی روزی روٹی کی تلاش میں سر گرداں ہو۔ اصل میں معاشرے کا سب سے پسا ہوا طبقہ یہی ہے۔ جو سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کے لئے مارا مارا پھر رہا ہے۔
یہ لوگ اپنی عزت نفس کا سودا نہیں کرتے یہ لوگ بھیک نہیں مانگتے۔ یہ اپنے بچوں کو حلال رزق کھلانے کو فوقیت دیتے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ رزق کی تقسیم اسی کی طرف سے ہے سب لوگ امیر یا سیٹھ ہوتے تو کارخانہ قدرت کس طرح چلتا۔
پر ہمیں اپنے اپنے گریباں میں نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ مزدور کو اس کا جائز حق دینا چاہئیے چاہے وہ انفرادی سطح پر ہو یا ملکی سطح پر
موجودہ مہنگائی کے دور میں مزدور کی مزدوری میں اضافہ نا گزیر ہے۔ اس پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
ہمیں اگر کوئی عہدہ یا رتبہ ملا ہے تو اپنے اندر اناؤں کے بت کھڑے نہیں کرنے چاہئے غرور تکبر سے بچنا چاہئے بھائی چارہ صلہ رحمی کو فروغ دینے سے ہی معاشرہ ابتری سے بچ سکتا ہے۔
کسی شاعر نے خوب کہا ہے کہ
ظفر آدمی اس کو نہ جانئے گا ہو وہ کتنا ہی صاحب فہم وذکاء
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا

اپنا تبصرہ بھیجیں