کیوں ڈریں زندگی میں کیاہوگا!

ہماری تہذیب میں کھیل اور تماشےکی بڑی اہمیت رہی ہے۔ ہم بدل سے گئے ہیں یا ہماری تہذیب نے اپنی حیثیت بدل لی ہے۔ ہماری ثقافت میں جمہور توبہت تھے مگر جمہوریت نہ تھی۔ افراد کی حیثیت ضرور تھی مگر ان کی اہمیت نہ تھی۔ فرنگی نے ہندوستان پر بڑے طریقے سے قبضہ کیا اور پھر ہندوستان کو متحدبھی رکھا۔ کچھ ریاستوں کو آزادی ضرور دی مگر خود مختاری نہ دی۔ پھر دو عالمی جنگوں کے بعد ملکہ برطانیہ کو مشورہ دیا گیا کہ ہندوستان کو آزادی دے دی جائے اور اس کی خود مختاری پر قانون سازی کی جائے۔ متحدہ ہندوستان کی جنتا نے آزادی کی جنگ خوب لڑی مگر خود مختاری پر اس کی سیاسی اشرافیہ نے برطانیہ سے سودے بازی کی۔ ہندوستان دو بڑے ملکوں میں بدل گیا۔ دونوں ممالک نے نظام جمہوریت پر یقین کیا۔ پاکستان نام کی ریاست دو حصوں میں اپنی پہچان کرواتی تھی۔ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان ،دونوں حصوں کے درمیان بھارت تھا۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے اثاثے اس کو مل نہ سکے۔ کچھ معاملات پر ہندوستان کے لیڈرمہاتما گاندھی نے مداخلت بھی کی مگرولبھ بھائی پٹیل اور نہرو کی وجہ سے معاملات خراب ہی رہے۔ مہاتما گاندھی کو ہندو انتہا پسندنتھو رام گوڈسے نے قتل کر دیا، دو ملک بن تو گئے مگر برطانوی سماج کے زیر سایہ ہی رہے۔
اتنے سال گزرنے کے بعد آج پھر پاکستان کے عوام کو احساس ہو رہا ہے کہ ان کی کوئی پہچان نہیں ہے۔ جب پاکستان کو برطانوی سامراج سے آزادی ملی تو اس وقت ایک بہت بڑی ہجرت ہوئی۔ اس ہجرت کا تصور زمانہ قدیم کے حوالے سے تھا۔ جب مکہ میں مسلمانوں پر زمین تنگ ہوگئی تو اجازت ملی اور لوگ اپنا مال و متاع چھوڑ کر آزادی اور خود مختاری کا خواب لے کر ہجرت کرنے لگے۔ پاکستان میں مہاجرین کا زیادہ دباؤ سندھ، کراچی، پنجاب اور مشرقی پاکستان میں تھا۔ نیا ملک بن چکا تھا۔ جس شخص نے پاکستان کی آزادی میں اپنی پہچان کروائی۔ وہ کراچی کے محمد علی جناح تھے۔ مگر ان کی زندگی پاکستان میں زیادہ نہ تھی پھر اندرون خانہ بھی سازشوں کا آغاز ہو چکا تھا۔ پاکستان کی افواج برطانوی افواج کے مزاج کی تھی۔ پاکستانی افواج کے پہلے کمان دار جنرل گریسی کا کردار بہت ہی مشکوک سا رہا۔ اس وقت کے دو بااختیار حضرات، جنرل اسکندر مرزا، اور جنرل ایوب خان تھے۔ ملک بھر میں انتخابات ہوئے اور مسلم لیگ کی حیثیت مشکوک ہوئی۔ کمزور جمہوریت مگرچلتی رہی۔ پھرا سکندر مرزا کو صدر بنا لیا گیا اور ان کے وزیر دفاع جنرل ایوب خان تھے ،اسکے بعد جمہوریت نے اپنا منہ چھپا لیا۔
دس گیارہ سال کی کمزور جمہوریت بہت ہی بد نام ہو گئی تو ایوب خان نےاسکندر مرزاکی ایما پر یلغار کر دی اور پہلے مارشل لا کا آغاز ہوا۔ اس مارشل لا سرکار کے پاس قبضہ کا جواز نہ تھا۔ ہاں ایک بات ضرور تھی۔ طاقت کا سرچشمہ فوج تھی اور محکوم پاکستان کے عوام تھے۔ ملک کے دونوں حصوں میں اس مارشل لا کے خلاف عوام کا رد عمل بس کمزور سا رہا۔ جنرل ایوب خان نے ملک میں تبدیلیوں کا آغاز کیا اور زیادہ تبدیلیاں مغربی پاکستان کے حصہ میں آئیں۔ مشرقی پاکستان کو نظر انداز کیا گیا۔ اس کا احساس مشرقی پاکستان کے مسلمانوں کو زیادہ تھا۔ جنرل ایوب خان صدر پاکستان بن گئے اور ملک کیلئے نئے نظام کا سوچا گیا، نوکر شاہی کی مدد اور مشورے سے بنیادی جمہوریت کا نظام لایا گیا۔ یہ نظام امریکی جمہوری نظام سے ملتا جلتا تھا۔ پھر پہلی بار صدر کے انتخاب کیلئے کشمکش شروع ہوئی۔ قائداعظم کی ہمشیرہ کو میدان میں لایا گیا ۔ مگر ہوا کیا۔ مغربی پاکستان میں قائداعظم کی ہمشیرہ کی نہ صرف کردار کشی کی گئی بلکہ بدترین دھاندلی کے ذریعے انہیں الیکشن بھی ہرایا گیا ، عوام کوبے توقیر کر دیا گیا۔
فیلڈ مارشل محمد ایوب خان صدر پاکستان تو بن گئے مگر حسب سابق اندورن خانہ سازشوں کا آغاز ہوا ,1965ء کی جنگ کی منصوبہ بندی کا الزام ایوب خان پر عائد کیا گیا،برسوں بعد معلوم ہوا کہ اس میںاُس زمانہ کے وزیر اور سندھی وڈیرےذوالفقار علی بھٹو بھی فوج کے ساتھ تھے۔ بظاہر تو حملہ بھارت نے کیا اگرچہ کوئی جواز نہ تھا۔ یہ جنگ صرف مغربی پاکستان کی سرحد پر لڑی گئی، ابتدا میں کچھ کامیابی بھی ضرور ملی۔ مگر دو ہفتے کی جنگ کے بعد دونوں ملک تھک گئے، اقوام متحدہ سے رجوع کیا گیا اور جنگ بندی پر راضی ہوئے۔ اس موقع پر ذوالفقار علی بھٹو صدر ایوب خان سے ناراض نظرہوئے۔ ایوب خان کو خطرہ کا احساس ضرور تھا۔ اس نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔ آئین کے مطابق اسپیکر ان کی غیر موجودگی میں اپنا کردار ادا کرتا مگر فوج نے مداخلت کی جنرل یحییٰ خان نے مارشل لاءنفاذ کر دیا۔1970میں مشرقی پاکستان میں خلفشار تھا، اس کے باوجود انتخابات ہوئے تو مجیب الرحمن کی جماعت نے بھاری اکثریت حاصل کی۔مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت کو اکثریت ملی۔ بھارت نے مشرقی پاکستان میں مداخلت جاری رکھی۔ جنرل یحییٰ خان نے فیصلہ کیا۔ اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں نہ بلایا جائے۔ اس موقع پر بھٹو مشرقی پاکستان میں تھا، وہ واپس آگیا۔ مشرقی پاکستان پر بھارت نے حملہ کر دیااور قائد کا پاکستان دو لخت ہو گیا ۔ انتقال اقتدار مغربی پاکستان میں ہوا۔ بھٹو پہلے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹراور بعد ازاں صدر بن گئے ۔
ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کی مشاورت سے ایک آئین پر سب کو راضی کر لیا۔ صوبوں کو کچھ خودمختار بھی دی ۔ پھر نہ جانے کس نے ذوالفقار علی بھٹو کو مشورہ دیا کہ انتخابات قبل از وقت کروا دیئے جائیں۔ اس وقت متحدہ اپوزیشن سے مذاکرات مکمل ہو چکے تھے۔ ایک دفعہ پھر فوج نے مداخلت کی اور اس بار بھی کوئی جواز نہ تھا۔ جنرل ضیاءنے جلد از جلد انتخابات کی نوید دی۔ پھر ہوا کیا۔ بھٹو کی مقبولیت سے خوف زدہ ہو کر اس پر ایک خود ساختہ مقدمہ بنا دیا گیا۔ مارشل لا سرکار نے مقدمہ لڑا ۔ امریکہ اس وقت پاکستان کی افواج کے بہت ہی قریب تھا اوربھٹو کو پسند بھی نہیں کرتا تھا۔ بھٹو کو پھانسی کی سزا سنا کر تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ جنرل ضیاءنے افغان جنگ میں امریکہ کا خوب ساتھ دیا اور اس کو جلد اندازہ ہو گیا کہ اس کی جان کو خطرہ ہے۔ پھر امریکہ نے بھی پابندیوں کا آغاز کر دیاتھا۔جنرل ضیاءکا جہاز فضامیں پھٹ گیا اور اس وقت کے کمان دار جنرل بیگ کی مہربانی سے جنرل ضیاءکے خصوصی مہربان چیئرمین سینٹ غلام اسحاق خان کو صدارت مل گئی اور انتخابات ہوئے۔ پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی اور بے نظیر بھٹوپاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ ان کا مقابلہ جنرل ضیاءکے منہ بولے بیٹے نواز شریف سے تھا۔ عسکری دوستوں کی مداخلت جاری رہی۔ بے نظیر کا اقتدار قبل از وقت ختم کر دیا گیا۔ پھر اقتدار کی جنگ میں میاں نواز شریف کو موقع دیا گیا۔ مگر وہ فوج کو سمجھ نہ سکے،چنانچہ ان کے من پسند سپاہ سالار نے ان کا دھڑن تختہ کر دیا۔
جنرل مشرف نے میاں نواز شریف پر مقدمہ بنایاتو میاں نواز شریف کے امریکی دوستوں نے مداخلت کی اور سعودی عرب کو منایا کہ میاں نواز شریف کو پناہ دے۔ میاں صاحب کو پناہ مل گئی۔ جنرل مشرف نے امریکہ کو جلد ہی رام کر لیا اور بے نظیر وطن آنے پر راضی ہو گئیں۔ فوج نے آصف علی زرداری کو صدر بنا دیا کیونکہ وہ امریکہ میں اپنی تربیت مکمل کر چکے تھے۔ پھر تاریخ رقم ہوئی۔ بے نظیر کو قتل کر دیا گیا۔ اس قتل کے کئی ذمہ دار ہیں ،البتہ سب نے ایک دوسرے پر الزام لگایا ۔ میاں نواز شریف پر کرپشن کے مقدمے بنے اور ان کی بیٹی بھی مجرم بنی اور دونوں کو اعلیٰ عدالت نے سزا سنائی۔ اس کے باوجود زورآوروں کی مداخلت کے بعد ان کو باہر جانے کا موقع دیا گیا۔ جنرل باجوہ کا انتخاب بھی میاں نواز شریف نے کیا تھا۔ جب2018ءمیں انتخابات ہوئے تو اندازہ تھا عمران خان بھاری اکثریت حاصل کرے گا۔ مگر پھر عسکری دوستوں اور مہربانوں نے مداخلت کی اور عمران خان سادہ اکثریت سے وزیر اعظم بن گیا۔ جنرل باجوہ کو عمران خان نے توسیع دی اور فوج سےکسی قسم کا کوئی پنگا لینےسےگریز کیا۔ عمران کا پہلااختلاف آئی ایس آئی چیف کےمعاملے پر ہوا ۔جنرل باجوہ نے ان کو بدل کر فیض حمیدکو آئی ایس آئی چیف بنا دیا اور خیال تھا کہ وہ اگلے سپاہ سالار ہوں گے مگر میاں نواز شریف اور امریکہ کی مداخلت سے وہ نظر انداز ہو گئے۔
اتنے سال گزرنے کے بعد اب اندازہ ہو رہا ہے کہ فوج ہمار ی جمہوریت کے لئے کتنی بے چین رہتی تھی۔ ماضی قریب میں جنرل(ر) باجوہ کا کردار بڑا حیران کن نظر آتا ہے۔ ان کی مداخلت کے کارن ملک مکمل طور پر عدم استحکام کا شکار رہا۔ سابق سپہ سالار پاکستان کی خارجہ پولیسی چلاتے رہے۔ جنرل باجوہ کے زمانہ میں ان کی ہدایت پر رانا ثناءاللہ پر منشیات کا کیس بنا۔ ان کی مداخلت عدلیہ کے معاملات میں بہت تھی۔ جب وہ عمران خان سے مایوس یا ناراض ہوئے تو بھی انہوں نے اعلیٰ عدلیہ کو استعمال کیا۔ اب بھی فوج بظاہر غیر جانبدارہے۔ تاہم جو لوگ ان کی مدد پرعارضی طور پر سرکار میں آئے۔ وہ جمہوریت کے منہ پر مسلسل کالک مل رہے ہیں۔ انہوں نے آئین کے کردار کو مشکوک کردیا ہے۔ قومی اسمبلی بھی نامکمل ہے۔ اس کی حیثیت کو متنازعہ بنا دیا گیاہے۔ اب وہ لوگ 9مئی کے سانحہ کے تناظر میں قومی عدالتوں کی بات کر رہے ہیں۔ اگرچہ ایسا ہوگا نہیں۔ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی ان تمام معاملات کا ذمہ دار پنجاب کے جزوقتی وزیر کوخیال کرتے ہیں اور جو کچھ پنجاب میں ہو رہا ہے۔ وہ دہشت اور وحشت کی مثال ہے۔ عدالتوں کا وقار داؤ پر لگا ہوا ہے۔ جمہوریت کا تصور بے مقصد ہو گیاہے۔ انتخابات مسائل کا حل نہیں۔ عوام رُل گئے ہیں۔ اب کیوں ڈریں زندگی میں کیا ہوگا، تجربہ ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں