آخر کیوں؟

بینظیر بھٹو دور حکومت تھا کہ اس وقت کے ایک ممبر واٹر کو کہا گیا وہ تربیلا غازی بھروتھا پر جلدی کام مکمل کریں۔ پرائم منسٹرکا پیغام دیا گیا وہ حکومت جانے سے پہلے اس کا افتتاح کرنا چاہتی ہیں۔ انہیں بھنک مل چکی تھی کہ شاید ان کی اقتدار سے رخصتی ہو جائےلہذا وہ جانے سے پہلے اس پراجیکٹ کا افتتاح کرناچاہتی تھیں تاکہ وہ کل جلسوں میں تقریریں کر کے کہہ سکیں کہ ان کے دور میں کتنے بڑے منصوبے چل رہے تھے۔
بینظیر بھٹو بھی نواز شریف ماڈل سے متاثر تھیں کہ پراجیکٹ وہ ہونے چاہئیں جو دوسروں کو آتے جاتے نظر آئیں جیسے لاہور اسلام آباد موٹر وے تھی۔ شہباز شریف نے بھی یہی کیا کہ ترقیاتی کام وہ کرو جو زمین کے اوپر نظر آئیں۔ زمین کے نیچے والے منصوبوں میں انہیں کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ اس لیے جب شہباز شریف کے دور میں لاہور میں بارش کا پانی سیوریج سسٹم نہ ہونے سے پورے شہر کو ڈبو دیتا تھا اور وہ اپنے کائو بوائے ٹائپ بوٹ، سر پر ہیٹ اور کوٹ پہن کر پانی کے اندر فوٹو کھنچواتے تو میں اس وقت بھی اپنے ٹی وی شوز میں کہتا تھا کہ ہر سال یہ بارش ہوتی ہے اور ہر سال وزیراعلی شہباز شریف اس بارش کے پانی میں کھڑے ہو کر اس تقریب کا افتتاح کرتے ہیں۔ نہ بارش رکی نہ شہباز شریف کے بوٹ سمیت فوٹو۔ سیوریج سسٹم پھر بھی بہتر نہ ہوا۔ میرا کہنا تھا دس سال تک لاہور کا سیوریج سسٹم اس لیے بھی فورا نہ بن سکا کیونکہ یہ سب کام لاہور میں زیر زمین ہوناتھا۔ زیرزمین سیوریج کی بچھی یہ لائنیں کسی کو نظر نہیں آئیں گی۔ ان سیوریج لائنوں کا کریڈٹ شہباز شریف لوگوں کو دکھا کر نہیں لے سکتے لہذا وہ اس کام میں کم دلچسپی رکھتےہیں۔ ہاں موٹر وے، میٹرو بس یا لاہور کے انڈر پاسز، فلائی اوور برج جو زمین سے اوپر نظر آتے ہیں ان کی تکیمل وہ چھ ماہ سے ایک سال میں مکمل کرالیتے ہیں۔
وہی بات کہ جو دکھتا ہے لوگ اس پر یقین رکھتے ہیں۔
یوں بینظیر بھٹو بھی ایسے منصوبے کا افتتاح کرنا چاہتی تھیں۔ لیکن وہاں موجود ٹیکنکل ممبر واٹر نے بینظیر بھٹو کو انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا یہ کوئی عام تعمیری منصوبہ نہیں تھا کہ کچھ پلرز ڈال کر اوپر چھت ڈال کر اس کا افتتاح کر دیں۔ یہ بہت ٹیکنکل کام ہے اور اپنے وقت پر ہوگا۔ بینظیر بھٹو نے اصرار کیا تو ان صاحب نے بڑی محنت سے انہیں سمجھایا اور بینظیر بھٹو نے بات سمجھ لی اور اصرار نہیں کیا۔
میرے مرحوم دوست ڈاکٹر ظفر الطاف اکثر بینظیر بھٹو کی ایک خوبی کی تعریف کرتے تھے کہ بے شک آپ سے وہ سخت ناراض ہے ۔ غصے میں ہے۔ لیکن آپ اس سے دلیل سے بات کریں تو وہ قائل ہو جاتی تھی۔ اپنا فیصلہ بدل دیتی تھی۔ میں نے پوچھا اس کی کیا وجہ تھی کیونکہ اکثر وزیراعظم تو کسی کی نہیں سنتے۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو کو جو چیز دوسروں سے ممتاز کرتی تھی وہ ان کا بک ریڈر ہونا تھا۔ وہ کتاب پڑھتی تھی لہذا کتابوں کا رسیا بندہ ہمیشہ کھلے دماغ کا ہوتا ہے۔ اس کو آپ دلیل سے سمجھائیں وہ سمجھ جائے گا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کہتے تھے ذہین انسان کو ڈیل یا ہینڈل کرنا ہمیشہ آسان رہتا ہے کہ اس سے جذبات کی بجائے دلیل سے بات کریں وہ فورا راضی ہو جائے گا۔ ڈفر انسان کو دلیل کبھی سمجھ نہیں آتی۔
بات دوسری طرف نکل جائے گی لیکن اس سے ملتا جلتا واقعہ مجھے سابق فنانس سیکرٹری غفور مرزا نے بھی سنایا تھا۔ وہ این ایچ اے میں ایک عہدے پر کام کررہے تھے۔ اس وقت مری ایکسپریس پر کام کا منصوبہ بن رہا تھا۔ آصف زرداری چاہتے تھے کہ وہ منصوبہ ان کی من پسند پارٹی کو دیا جائے۔ جس پر انہوں نے دبائو اور اصرار کے باوجود انکار کر دیا کیونکہ وہ پارٹی اس کام کے لیے کوالیفائی نہیں کرتی تھی۔ زرداری صاحب ان سے ناراض تھے۔ ایک دن وزیراعظم ہاوس سے فون آیا کہ وزیراعظم صاحبہ ملنا چاہتی ہیں۔ غفور مرزا وہاں پہنچے تو آصف زرداری بھی وہاں موجود تھے۔ غفور مرزا سمجھ گئے کہ کیا کہانی تھی۔ بینظیر بھٹو نے مرزا صاحب کو تھوڑا ناراض ہو کر کہا آپ زرداری صاحب کے کہنے پر کنڑیکٹ کیوں نہیں دے رہے۔ مرزا صاحب نے پوری تفصیل سے بات بینظیر بھٹو کو بتائی اور بتایا وہ کیوں اس ڈیل سے انکاری تھے۔ زرداری صاحب کو سن کر پھر غصہ آیا۔ انہوں نے غفور مرزا پر چڑھائی کی۔ بینظیر بھٹو کچھ دیر سنتی رہیں۔ پھر مرزا صاحب کو کہا چلیں ٹھیک ہے ۔ آپ جائیں۔ ہم دیکھتے ہیں آپ کا کیا کرنا ہے۔
جب غفور مرزا وہاں سے اٹھ کر کمرے کے دروازے تک پہنچے تو پیچھے سے بینظیر بھٹو نے زرداری صاحب کی موجودگی میں اونچی آواز میں کہا مرزا صاحب میرا خیال ہے آپ نے ٹھیک باتیں کی ہیں۔ آپ وہی کریں جو آپ کا خیال ہے ٹھیک ہے۔
غفور مرزا نے مجھے برسوں بعد بتایا کہ انہوں نے وہ ٹھیکہ اس کمپنی کو نہیں دیا تھا جس کو زرداری صاحب دلوانا چاہتے تھے۔ اور بینظیر بھٹو نے ان پر کوئی دبائو نہیں ڈالا تھا۔
خیر وقت کچھ گزرا اور جنرل مشرف نے بارہ اکتوبر کو نواز شریف کو تختہ الٹا اور خود ملک کے سربراہ بن بیٹھے۔ اگلے سال پاکستان میں شدید خشک سالی کا حملہ ہوا۔ بلوچستان، تھل اور چولستان کے علاقوں میں اس خشک سالی سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے انسان اور جانور دونوں متاثر ہوئے۔ سندھ میں بھی پانی کا شدید مسلہ ہوا۔ لوگ فصلوں اور انسانوں کے لیے پانی چاہتے تھے۔ بات جنرل مشرف تک پہنچی تو انہوں نے کہا تربیلا میں پانی موجود تو ہے تو پھر ریلیز کریں صوبوں کو تاکہ خشک سالی کا مقابلہ کیا جاسکے۔ اس وقت تک وہی افسر ترقی کر کے اب وزارت پانی و بجلی میں بڑے عہدے تک پہنچ چکے تھے۔ انہیں کہا گیاکہ جنرل مشرف کا حکم ہے آپ تربیلا سے پانی ریلیز کریں۔ انہوں نے کہا وہ ان ایشوز کے ماہر ہیں۔ آپ جنرل مشرف کو بتائیں ڈیم سے پانی نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس وقت پانی ڈیم میں بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس وقت ڈیم کا پانی نیچے سطح کے تقریبا قریب ہے ۔ اس موقع پر اگر پانی چھوڑا گیا تو وہ ٹربائن کو خراب کر دے گا۔ اتنے نچلے لیول پر پانی میں مٹی ہوتی ہے جو ہماری ٹربائن کا نقصان کر دیں گی اور اس خشک سالی سے بھی بڑا نقصان ہوگا۔
یہ بات جنرل مشرف اور ان کے مشیروں کو بتائی گئی کہ جناب اس وقت تربیلا سے صوبوں کو پانی چھوڑنا مشکل ہے۔ ڈیم کو نقصان ہوگا۔ جنرل مشرف نے کہا کیسے نقصان ہوگا۔ پانی ہے وہ ٹربائن سے گزر جائے گا۔ یہ کون سی راکٹ سائنس ہے۔ جب یہی جواب اس اعلی افسر کو دیا گیا اور کہا گیا جنرل مشرف چاہتے ہیں پانی ہر حال ڈیم سے ریلیز کریں اور کچھ نہیں ہوگا تو انہوں اس نے دفعہ مزاحمت کی بجائے پانی ریلیز کرنے کا حکم جاری کر دیا۔
وہی ہوا جس کا اندیشہ اس اعلی افسر نے اظہار کیا تھا۔ گدلہ اور مٹی سے بھرا پانی سیدھا ٹربائن میں silt سے بھر گیا اور وہی نقصان ہوا۔ اس پر لاکھوں ڈالرز خرچہ کر کے عالمی سطح کے ایکسپرٹ امریکہ سے منگوائے گئے تاکہ اب ڈیم کی ان ٹربائن کو صاف کر کے چالو کریں جو مٹی پھنس جانے کی وجہ سے ناکارہ ہوگئے تھیں۔
جب وہ امریکن ایکسپرٹ پاکستان پہنچے اور معائنہ کر چکے تو ان میں سے ایک جو اس سابق ممبر واٹر اور اب وزارت کے سیکرٹری کو اچھی طرح جانتا تھا افسوس سے بولا کہ مان لیا جنرل مشرف یا ان کے وزیروں کو اس ٹینکنکل چیز کا علم نہ تھا کہ ٹربائن کو کیا نقصان ہوگا۔ آپ کو تو علم تھا یہ ہوگا۔ اس سیکرٹری نے جواب دیا کہ جی مجھے بالکل علم تھا۔ میں نے پوری کوشش بھی کی۔ جب جنرل نہیں مانااور کہتا تھا کچھ نہیں ہوگا۔
تو میں نے کہاٹھیک ہے پھر پانی چھوڑ دیتے ہیں،جنرل کو بھی پتہ چل جائے گا.

آخر کیوں؟” ایک تبصرہ

  1. You are in reality a excellent webmaster. This website loading pace is amazing. It seems that you are doing any distinctive trick. Also, the contents are masterpiece. you’ve performed a magnificent task on this matter! Similar here: bezpieczne zakupy and also here: Dobry sklep

اپنا تبصرہ بھیجیں