کنگز پارٹی کا قیام مگر کنگ میکر کون؟

یوں تو قیام پاکستان سے پہلے بھی کئی بار مسلم لیگ کا بٹوارہ ہوچکاتھا،مثال کے طور پر برطانیہ سرکار نے نومبر1927ء میں Sir John Simonکی سربراہی میں سائمن کمیشن کا اعلان کردیا۔چونکہ اس کمیشن میں کسی ہندوستانی کو نمائندگی نہیں دی گئی تھی اس لئے قائداعظم نے اس کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا مگر ان کے خلاف مسلم لیگ میں بغاوت ہوگئی۔سر محمد شفیع ،سر فضل ِحسین ،سر فیروزخان نون اور چند دیگر لیگی رہنما ئوں نے قائداعظم کا حکم ماننے سے انکار کردیا۔ 31دسمبر1927ء کو مسلم لیگ دو حصوں میں بٹ گئی،ایک اجلاس کلکتہ میں قائداعظم کی سربراہی میں ہوا تو دوسرا اجلاس لاہور میں سر شفیع کی صدارت میں منعقد ہوا۔
سید شمس الحسن اپنی تصنیف’’Plain Mr Jinnah‘‘میں صفحہ نمبر36پر لکھتے ہیں’مسلم لیگی ارکان جو سائمن کمیشن سے تعاون کے حق میں تھے ،انہوں نے 31دسمبراوریکم جنوری کو لاہور میں اپنا الگ اجلاس منعقد کیا۔آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کا اعلان کردیا گیا جو شفیع لیگ کہلائی ۔سر محمد شفیع اس پارٹی کے صدر جبکہ علامہ اقبال سیکریٹری بن گئے۔
علامہ اقبال نے تو 6ماہ میں ہی رجوع کرلیا البتہ سر محمد شفیع نے اپنے دھڑے کو مسلم لیگ میں ضم کرنے میں کئی برس لگادیئے۔بعد ازاں مسلم لیگ مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی لیکن قیام پاکستان کے بعد سیاسی بندوبست کے تحت قائداعظم کی مسلم لیگ میں پہلی بار نقب زنی کرتے ہوئے ری پبلکن پارٹی کے نام سے کنگز پارٹی کیسے بنائی گئی؟یہ روداد بھی بہت دلچسپ ہے ۔اب تک یہ روایت چلی آرہی تھی کہ جو وزیراعظم بنتا ،مسلم لیگ کی صدارت بھی اس کی جھولی میں ڈال دی جاتی۔مگر1956ء کا آئین نافذ ہونے کے بعد یہ تحریک اُٹھی کہ مسلم لیگ کو حکومتی اثرو رسوخ سے آزاد کیا جائے۔اب چوہدری محمد علی کو مسلم لیگ کی صدارت یا وزراتِ اعظمی میںسے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا ۔چوہدری محمد علی نے وزیراعظم کے منصب کو ترجیح دی تو مسلم لیگ کی صدارت سردار عبدالرب نشر کے حوالے کردی گئی ۔اس وقت کے وزیر پیر علی محمد راشدی کی کتاب ’’رودادچمن‘‘ میں بیان کی گئی تفصیل کے مطابق ’’سردار عبدالرب نشر سے نوکر شاہی یعنی اسکندر مرزا اورچوہدری محمد علی کا پہلا ٹکرائو ڈاکڑ خان صاحب کے سوال پر ہونا تھا۔اسکندر مرزا گروپ کا خیال تھا کہ چونکہ سردار نشتر،ڈاکٹر خان صاحب کو قبول نہیں کرے گا لہٰذا اسی موقع کو استعمال کرتے ہوئے سردار نشر کے غبارے سے ہمیشہ کیلئےہوا نکا ل دی جائے اور مسلم لیگ کو تڑوادیا جائے۔ــ‘‘ چنانچہ مسلم لیگ کو توڑ کر ایک نئی کنگز پارٹی بنانے کے منصوبے پر کام شروع ہوگیا۔قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ اسکندر مرزا جوڑ توڑ کے بادشاہ تھے اور جس وقت یہ پارٹی بن رہی تھی اُن دنوں اسکندر مرزااس کا م میں اس قدر منہمک تھے کہ انہیں فائلیں دیکھنے کا وقت ہی نہ ملتا۔چنانچہ لاہور میں ہورہے اجلاس کے دوران پولیٹیکل انجینئرنگ کے ماہرین نے مسلم لیگ کو ری پبلکن پارٹی میں تبدیل کردیا ۔نئی پارٹی کا نام ریپبلکن پارٹی اس لئے رکھا گیا کہ ان دنوں امریکہ میں بھی ری پبلکن پارٹی کا راج تھا۔
چوہدری محمد علی دو کشتیوں کے سوار تھے ۔بچے کھچے مسلم لیگیوں نے آئی آئی چندریگر کی رہائشگاہ پر مسلم لیگ کا اجلاس بلایا تو اسی روز ری بپلکن پارٹی کی میٹنگ رکھ لی گئی ۔چندریگر بذات خود چوہدری محمد علی کو بلانے وزیراعظم ہائوس گئے مگر اس دوران اسکندر مرزا بھی آگئے ۔چندریگر اور اسکندر مرزا نے چوہدری محمد علی کا بازو تھام لیا اور کھینچا تانی شروع ہوگئی ۔چندریگر اسکندر مرزا کے مقابلے میں بہت کمزور تھے اس لئے چوہدری محمد علی مسلم لیگ کے اجلاس میں آنے کے بجائے ری پبلکن پارٹی کی میٹنگ میں پہنچ گئے۔ری پبلکن پارٹی بنتے ہی اسکندر مرزا بادشاہ گر بن گئے اور چوہدری محمد علی کی حیثیت محض ایک کٹھ پتلی وزیراعظم کی سی ہوگئی ہے۔
ایوب خان نے اپنی کتاب ’’جس رزق سے آتی ہو پروا زمیںکوتاہی ‘‘میں چوہدری محمد علی کی ان دنوں کی ذہنی کیفیت بیان کی ہے۔وہ لکھتے ہیں:’’اس زمانے میں ایک دفعہ میں نے انہیں بڑی بے بسی کی حالت میں ان کے دفتر میں دیکھا۔ چونکہ وہ وزارتِ دفاع کا قلم دان بھی خود سنبھالے ہوئے تھے، اسلئے مجھے ایک دفاعی سلسلے میں ان سے ملنے کیلئے جانا پڑا۔ انہوں نے مجھ سے کہا ’’میری جماعت نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔ بس اب معاملہ ختم ہے۔میں نے ان کی ہمت بندھانے کیلئے چند الفاظ کہے مگر ان کی تشفی نہ ہوئی ،نہیں نہیں۔ یہ معاملہ بہت سنجیدہ صورت اختیار کر گیا ہے۔ تم یہ کام کیوں نہیں سنبھال لیتے اور مجھے اس سے چھٹکارہ کیوں نہیں دلا دیتے؟‘‘ میں نے کہا ’’دیکھئے ان باتوں کا ذکر مجھ سے نہیں اپنے صدر سے کیجئے اور اس الجھن سے نکلنے کا کوئی مناسب طریقہ سوچئے۔‘‘
اس کے بعد ایوب خان کی کنونشن لیگ ،فاطمہ جناح کی کونسل مسلم لیگ،شیخ مجیب کی عوامی لیگ ،جونیجو لیگ،ن لیگ ،ق لیگ، ض لیگ، ف لیگ اور شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ سمیت نجانے کتنے جائز اور ناجائز بچوں نے جنم لیا۔لیکن اس نوعیت کا آخری تجربہ کرنے کا وقت آیا تو پہلے سے بے یار و مددگار، دربدر کی ٹھوکریں کھاتی تحریک انصاف کو گود لے لیا گیا۔اب جب اس ناخلف اولاد سے لاتعلقی اختیار کرنا پڑی تو ’’ استحکام پاکستان پارٹی ‘‘کے نام سے ایک اور بچے کو جنم دیا گیا ہے۔ اگر اس کا انگریزی میں مخفف دیکھیں تو IPPبنتا ہے یعنی آئی پی پی(پیپلز پارٹی)گویا ’’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ ۔‘‘بظاہر کنگز پارٹی جہانگیر ترین کی ’’استحکام پاکستان پارٹی‘‘ ہے لیکن حقیقی انتخاب کوئی اور ہے۔سوال تو یہ بھی ہے کہ کنگز پارٹی بن گئی ہے تو پھر کوئی کنگ بھی ہوگا اور کنگ میکر بھی ۔علامہ اقبال کی 1915ء میں شائع ہونے والی فارسی مثنوی کا ایک مصرعہ مستعار لوں تو ’’ہوشیار از حافظ صہبا گسار‘‘۔

اپنا تبصرہ بھیجیں