موٹروے پر سالٹ رینج ۔۔۔ موت کی وادی

لاہور اسلام آباد موٹر وے پر تقریباً دس کلومیٹر کا یہ سفر موت کی وادی ہے۔ موت کا کنواں ہے جسکے چپے چپے پر موت منہ کھولے بیٹھی ہے۔ اسلام آباد سے جب ہم لاہور واپس آتے ہیں تو موٹر وے پر پوائنٹ نمبر 230 کلر کہار انٹرچینج کے بعد آپکی گاڑی نیوٹن کے قانون کے مطابق وہ سیب بن جاتی ہے جو درخت سے ٹوٹ کر زمین کی جانب رواں دواں ہو جاتی ہے اور اس روانگی کو انتہائی احتیاط ، کم رفتار اور صبر و تحمل کے ساتھ کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔ یہ اس قدر خطرناک اترائی ہے کہ جس کا اندازہ ہ صرف وہ ڈرائیور ہی لگا سکتا ہے جس کا موٹروے پر سفر معمول ہے۔ اس اترائی پر بریک کے مسلسل استعمال کی وجہ سے بریک گرم ہو جاتی ہیں اور بریک فیل ہونے کا خطرہ خطرناک حد تک بڑھ جاتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق موٹروے کے صرف پوائنٹ نمبر 229 پر ہی تین ہزار سے زائد حادثات ہو چکے ہیں جن میں سینکڑوں انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔

ایک طرف جہاں ہم نواز شریف کے اس انقلابی منصوبے کی بہت تعریف کرتے ہیں اور موٹروے پر سفر کرتے وقت نواز شریف کو دعائیں دیتے ہیں وہیں دوسری طرف موٹروے پر سالٹ رینج جیسی موت کی وادی کے بارے میں بھی ضرور سوالات اٹھائے جانے چاہئیں کہ کیا وجہ ہے کہ موٹروے کے اس حصے کا ڈیزائن سیدھا موت کے منہ میں جاتا ہے۔ اگرچہ تمام ممکنہ وسائل کو بروئے کار لایا گیا ہو گا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسی سالٹ رینج کو کوّر کرتی ہوئی جی ٹی روڈ کیوں محفوظ ترین ہے۔

2005 میں مشرف دور میں ایک منصوبہ تیار کیا گیا تھا کہ سالٹ رینج کے متبادل موٹروے پر اس دس کلومیٹر پر محیط ایک محفوظ بائی پاس بنانا چاہئیے جو کلر کہار سے پہلے موٹروے سے اتر جائے اور آگے جا کر دوبارہ موٹروے سے مل جائے۔ اس بات سے ہی آپ اس جگہ کی ہولناکی کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اربوں روپے کا یہ منصوبہ اس جگہ کو اوائیڈ کرنے کے لئے تیار کیا گیا تھا لیکن یہ منصوبہ صرف کاغذوں کی حد تک ہی رہا اور اس پر دوبارہ کسی نے کوئی توجہ نہیں دی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں