اشرافیہ کی لوٹ مار

جو آپ نے فرمایا ،سب قوم کا سرمایا ۔پاکستان کو بیشمار نعمتوں سے نوازاگیا ہے ۔ہم باصلاحیت قوم ہیں ،اس میں بھی کوئی شک نہیں ۔یہ بات بھی درست ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ترقی کرنے سے نہیں روک سکتی ۔لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ گزشتہ 76سال کے دوران کوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہوا؟زرعی انقلاب کی نوید دی گئی ،صنعتی انقلاب کی خوشخبری سنائی گئی ،صنعتوں کو نیشنلائز کرکے دیکھ لیا ،نجکاری کے باوجود حالات بہتر نہ ہوئے،قرض اتارو ملک سنوارو جیسی اسکیمیں کامیاب نہ ہوپائیں ،ڈیم بنانے کیلئےفنڈز جمع کرنے کی مہم ناکام ہوگئی ،ایک قدم آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں تودس قدم مزید پیچھے چلے جاتے ہیں ۔کیوں ؟آخر کشکول توڑنے کے چند برس بعد ہی ہم کاسہ گدائی لیکر آئی ایم ایف کی دہلیز پر کیوں کھڑے ہوتے ہیں ؟دوست ممالک کے مالی تعاون کے باوجود معاشی مسائل حل کیوں نہیں ہوتے؟اعداد و شمار کے وہ جادوگر جو اقتصادی ماہرین کہلاتے ہیں ،ان کے پاس اس سوال کے بیشمار جواب ہوں گے مگر میرے نزدیک اس کی ایک بڑی وجہ اشرافیہ کی لوٹ مار ہے ۔اس اشرافیہ کا تعلق کسی ایک محکمہ یا شعبہ ہائے زندگی سے نہیں ، استحصالی طبقہ کے لوگ ہر طرف موجود ہیں ۔یہ اشرافیہ ملکی وسائل اور قومی خزانے میں نقب زنی کیسے کرتی ہے اس کی ایک چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہوں ۔کچھ دن پہلے ایک خبر نظروں سے گزری کہ تحریک انصاف کی حکومت نے منظور نظر افراد کو نہایت آسان شرائط پر 3ارب ڈالر کے قرضے دیئے اور پھر کمال سخاوت کا بے مثال مظاہرہ کرتے ہوئے یہ قرضے معاف کردیئے گئے۔مجھے لگا شاید یہ خبر حکومتی مہم کا حصہ ہے اور حسبِ روایت سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی جارہی ہے ۔جب تفصیلات سامنے آنے لگیں تو بھی میں نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا کیونکہ میرا خیال تھا کہ اس طرح کی باتیں کرنے والوں کو یا تو ملین اور بلین کا فرق معلوم نہیں یا پھر روپے اور ڈالر کو خلط ملط کردیا گیا ہے کیونکہ 3بلین ڈالر بہت بڑی رقم ہوتی ہے۔یہ کتنی بڑی رقم ہے اس کا اندازہ یوں لگائیں کہ 11جولائی کو سعودی عرب نے اسٹیٹ بینک میں 2ارب ڈالر منتقل کئےہیں تو پورا ملک بھنگڑے ڈال رہا ہے ۔اس سے پہلے پاکستانی حکام نے آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج لینےکیلئے کئی ماہ جوتیاں گھسانے کے بعد 3ارب ڈالر کا اسٹینڈنگ پیکیج ملنے کی خبر دی تھی تو بڑی عید کی خوشیاں دوبالا ہوگئی تھیں ۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ جس 3بلین ڈالر کیلئےہم مرے جارہے ہیں ،وہ یوں آسانی اور فراوانی سے لٹادیئے گئے ،بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے؟مگر معلوم ہوا کہ یہ خبر نہ صرف درست ہے بلکہ قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے اس معاملے کا نوٹس لے لیا ہے ۔
پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان بہت دبنگ قسم کے رکن پارلیمنٹ ہیں۔مجھے یقین تھا کہ اب نہ صرف سب تفصیلات سامنے آئیں گی بلکہ قومی خزانہ لٹانے اور لوٹنے والوں کو کٹہرے میں لایا جائے گا۔لیکن ہفتہ کے روز 11جولائی کی شام کو ایک خبر کے ذریعے معلوم ہوا کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی نے 628افراد کو 3ارب ڈالر بلا سود قرض دینے کا معاملہ بغیر کسی کارروائی کے نمٹا دیا۔گورنر اسٹیٹ بینک نے ان کیمرہ بریفنگ کے دوران اجلاس کے شرکاء کو کچھ تفصیلات تو فراہم کیں مگر بینکوں کے نام اور قرض لینے والے افراد کے نام نہیں بتائے گئے محض کمپنیوں کے نام ظاہر کئے گئے ۔چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی نے معاملہ نیب اور ایف آئی اے کے سپرد کرنے کی تجویز دی مگر بعض ارکان نے اس بات کی مخالفت کی اور کہا کہ اس سے صنعتی شعبے پر منفی اثر پڑے گا۔یوں یہ معاملہ بغیر کسی کارروائی کے نمٹا دیا گیا یعنی فائل بند پیسہ ہضم ۔
ویسے ان ارکان پارلیمنٹ کے نام قوم کو ضرور بتانے چاہئیںجو عوام کی نمائندگی کا دم بھرتے ہیں ،ہمارے ووٹوں سے،منتخب ہوتے ہیں اور پارلیمنٹ میں ان بڑے صنعتکاروں کی وکالت کرتے ہیں جو اس ملک کو لوٹ کر کھارہے ہیں ۔اگر کوئی عام آدمی بجلی کا بل برقت جمع نہ کرواسکے تو اہلکار اس کاکنکشن منقطع کردیتے ہیں ،موٹر سائیکل یا گاڑی کا ٹوکن ٹیکس جمع کروانے میں تاخیر ہوجائے تو روک لیا جاتا ہے ،کریڈٹ کارڈ کا بل جمع نہ ہو پائے تو بینک پیشہ ور غنڈوں کو وصولی کے لئے بھیج دیتا ہے،لیز کروائی گئی گاڑی کی قسط جمع کروانے میں دیر ہوجائے توبینک کا عملہ آتا ہے اورڈاکوئوں کی طرح گاڑی چھین کر لے جاتا ہے،بھاری شرح سود پر لیاگیاکوئی چھوٹا موٹا قرض بروقت نہ لوٹایا جاسکے تو گھر ،دکان یا زرعی زمین نیلام کرکے نہ صرف پوری رقم وصول کی جاتی ہے بلکہ سود کی رقم اور بھاری جرمانہ بھی لاگو ہوتا ہے ۔مگر 3ارب ڈالر یعنی موجودہ شرح تبادلہ کے حساب سے 825ارب روپے ان لاڈلے صنعتکاروں میں بانٹ دیئے گئے اور جب حساب کتاب کا وقت آیا تو ان کے نام بھی یوں صیغہ راز میں رکھے جا رہے ہیں جیسے بیوائوں ،غریبوں ،ناداروں اور ضرورت مندوں میں راشن تقسیم کیا گیا ہو ۔اور یہ تو اشرافیہ کی لوٹ مار کا بس ایک چھوٹا سا حصہ ہے اگر بھوکے ننگے عوام یہ پورا قصہ سن لیں تو ان کے محلات پر چڑھ دوڑیں۔اگر آپ کو صرف یہی معلوم ہوجائے کہ بجلی اور گیس جو عوام کیلئے روزبروز مہنگی ہوتی جارہی ہے ،وہ طبقہ اشرافیہ کے ان لاڈلوں کو کن ارزاں نرخوں پر فراہم کی جارہی ہے اور ہر سال انہیں کس قدر سبسڈی دی جاتی ہے ،تو آپ کے ہوش اُڑ جائیں ۔
جب تک اس لوٹ مار کا سلسلہ بند نہیں کیا جاتا ،یہ ملک آگے نہیں بڑھ سکتا ۔دنیا کی اور کوئی طاقت پاکستان کو ترقی کرنے سے نہیں روک سکتی ماسوائے اس اشرافیہ کے جس میں شامل بیشتر افراد کے تو نام بھی نہیں لئے جاسکتے ۔یہ ہر انقلاب،ہر تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں