پی پی پی قیادت سے گزارش

پاکستان پیپلز پارٹی جو اس وقت وفاق کی حکومت کے ساتھ شامل بھی ہے اور شانہ بشانہ ساتھ کھڑے بھی نظر آرہی کیوں کہ وہ اس حکومت کے حصے دار ہیں، پی پی پی چئیرمین جناب بلاول بھٹو زرداری تو اس حکومت کی آواز نہ صرف پاکستان میں ہیں بلکہ بیرون ملک بھی یہ آواز اس حکومت کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ ورنہ عمران خان نے اس حکومت کے ساتھ ساتھ اس ریاست کو عالمی سطح پر بدنام کروانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی، پی ٹی آئی کے بیرون ملک مقیم کارکنان نہ صرف عالمی اداروں، آمریکی سینیٹر بلکہ اقوم متحدہ کے مندوبین تک کو مبینہ طور پر خطوط ارسال کررہے ہیں جن میں پاکستان پر پابندیوں کے ساتھ ساتھ اس حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کررہے ہیں، اس سے پہلے عمران خان کے ایک وفاقی وزیر اور ایک صوبائی وزیر آئی ایم ایف پروگرام کے خلاف سازش کرتے ہوئے بھی پکڑے جا چکے ہیں، اس سازش کے ذریعے انھوں نے پوری کوشش کی تھی کہ آئی ایم ایف اس حکومت کا پیسے نہ دے اور ملک بحران کا شکار ہوجائے۔
یہ حکومت جب سے آئی ہے اسے بحرانوں کا ہی سامنا ہے۔ سیلاب، قدرتی آفات کے ساتھ ساتھ اس حکومت کا ایک ایسی بیماری کا سامنا ہے جس کا علاج کوئی نہیں ہے یہ کینسر سے بھی زیادہ مہلک بیماری ہے اور اس کے تخلیق کرنے والے ریٹائرڈ ہوچکے ہیں مگر اس بیماری کو اتنا پھیلا گئے ہیں کہ حکومت تو حکومت پورا معاشرہ اس بیماری کے جراثیم کا شکار ہورہا ہے۔ جی آپ سمجھ گئے ہوں گے میں معاشرے میں موجود پھیلائی گئی نفرت کی بات کررہا ہوں۔ نفرت جیسی بیماری کے خالق صرف عمران ہے جو ایسے جراثیم چھوڑ کر گئے جو پورے ملک میں نفرت کی آبیاری کر رہے ہیں اور ان جراثیم سے دیگر کئی جراثیم جنم لے کر پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔

ایسے میں معاشرہ تقسیم ہوچکا ہے، سپریم کورٹ کے ججز میں بھی تقسیم نظر آرہی ہے۔ نفرت کے بازار میں عمران خان سب سے مقبول رہنما بن کر ابھر رہے ہیں کیوں کہ ایک تو مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے دوسرا وفاقی حکومت کے پاس کوئی بیانیہ نہیں ہے۔ نہ ہی ابھی تک ملک کو دلدل سے نکالنے کا کوئی موثر پلان نظر آیا ہے۔ اور ان ساری باتوں کا فائدہ عمران خان اٹھا رہے ہیں۔

مسلم لیگ نواز کا پنجاب میں ووٹ بینک خطرے میں ہے، اور خیبر پختونخوا میں بھی اگر انتخابات ہوتے ہیں تو پی ٹی آئی اور ن لیگ دونوں کے ووٹ بینک کو پی پی پی، جے یو آئی اور کسی حد تک اے این پی سے خطرہ ہے، شاہد یہ ہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کے تین ججز نے خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ دینے سے گرہیز کیا ہے کیوں کہ اگر کئی پی ٹی آئی برتری حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے تو وہ صرف پنجاب ہے، اور پی ٹی آئی کو اس بات کا اندازہ ہے یہ ہی وجہ ہے وہ خیبر پختونخوا میں انتخابات کروانے پر زیادہ زور بھی نہیں دے رہی کیوں کہ خیبرپختونخوا کی عوام 9 سال انھیں بھگت چکی ہے۔ اور وہاں کی عوام بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کو رد کرتے نظر آئی ہے اس حالت میں کیا معزز 3 ججز کو آئین کی پامالی صرف پنجاب میں نظر آئی ؟ کیا خیبرپختونخوا کسی اور ملک کا صوبہ ہے ؟

ایسے میں پیپلز پارٹی کو کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہئے۔ پنجاب میں آج الیکشن ہوں یا کل پیپلزپارٹی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیوں کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو اندازہ ہے کہ وہ جنوبی پنجاب کے علاوہ دیگر اضلاع میں نشستیں نکالنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانی پڑے گے۔

اور رہی سندھ کی بات تو یہاں اگلے 10 سال بھی پی پی پی کو شکست دینے والا کوئی نظر نہیں آرہا، کیوں کہ سندھ کی عوام کو اس بات کی اچھی طرح سمجھ ہے کہ اگر کوئی جماعت اس کے حقوق کا تحفظ کر سکتی ہے تو وہ صرف پی پی پی ہے۔
مگر میری سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ پیپلز پارٹی موجودہ حالات سے فائدہ اٹھانے کے بجائے مخلوط حکومت کو بچانے کی کوششیں کیوں کررہی ہے۔ اس حکومت میں رہتے ہوئے عدلیہ کے فیصلوں اور سپریم کورٹ اور پی ڈی ایم کی جنگ کو وفاقی حکومت پر چھوڑ دینا چاہئے۔ پی پی پی کے پاس نادر موقع ہے کہ اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پی ٹی آئی اور ان کے مدد کرنے والے ججز کے خلاف عملی طور پر میدان عمل میں آکر کردار ادا کرے۔ پی پی پی کو مسلم لیگ نواز کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ پنجاب میں انتخابات کروادیں، کیوں کہ عام شنید یہ ہی ہے کہ کسی پیرنی نے عمران خان کو 5 مئی سے 18 مئی کے بیچ پنجاب میں انتخابات کروانے کا کہا ہے۔ پیرنی کا کہنا ہے کہ ان تاریخوں میں اگر انتخابات ہوگئے تو پی ٹی آئی کی جیت یقینی ہے، اور اب تو سپریم کورٹ نے بھئ 14 مئی کی تاریخ دے کر پیرنی کے مبینہ دعوؤں پر مہر ثبت کردی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پیرنی کو خوش کرنے کے لیے یہ تاریخ دی گئی ہے کیوں کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ 90 دن میں انتخابات ہوتے لیکن مئی کی جو تاریخ سپریم کورٹ نےدی ہے وہ تو 90 دن سے باہر ہے تو بادی النظر میں پیرنی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ایسے میں پیپلز پارٹی سے گذارش ہے کہ مریم نواز اور ان کے والد کی جنگ کا ایندھن نہ بنیں، تخت لاہور کی جنگ بہتر ہے پی ٹی آئی اور مسلم لیگ خود لڑیں، کیوں کہ پی پی پی کو سندھ تک محدود کرنے کے پیچھے نواز شریف کا ماضی ہے جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ میری پھر گذارش ہے پی پی پی قیادت سے کہ تخت لاہور کی جنگ کا براء راست حصہ نہ بنیں، اگر اس جنگ میں کھودنا ہے تو پنجاب کی قیادت کو سامنے رکھا جائے کیوں کہ عمران خان کے سیاست میں دن گنے جا چکے ہیں اور عمران خان کا ووٹ بینک مسلم لیگ کی جھولی میں تب ہی گرے گا جب پنجاب میں اس بڑے ووٹ بینک کے پاس کوئی چوائس نہ ہوگی، پی پی پی کو پنجاب میں اپنی الگ شناخت قائم کرنے کے لیے اس ووٹ بینک کو اپنے طرف دعوت دینی ہوگی اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ پی پی پی نواز لیگ اور پی ٹی آئی کی جنگ میں براء راست شرکت سے گرہیز کرے اور اپنی حکمت عملی ترتیب دے کر پنجاب میں جدوجہد کا آغاز کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں