’’خواجہ آصف کے ڈکیت حاضر ہوں! ‘‘

’’خواجہ آصف کے ڈکیت حاضر ہوں! ‘‘

خواجہ آصف میرے پسندیدہ اسپیکرز میں سے ایک ہیں جو اسمبلی فلور پر بُری بات کو بھی ایسے احسن انداز سے کرتے ہیں جیسے اچھی بات ہو ۔ مجھے خواجہ صاحب کی پرسوں ترسوں کی تقریر نے ایک دفعہ پھر اُن کا “گرویدہ” بنا دیا ہے کہ انہوں نے دیسی ، ولایتی اور روایتی زبان میں کچھ لوگوں کی نذر ایسے ڈکیت کی اصطلاح پیش کی جیسے نذرانہ عقیدت پیش کر رہے ہوں۔ اب مجھے نہیں پتہ یہ باتیں دل سے کی جا رہی تھیں یا دماغ سے، جو بھی ہے ہم اسے”عارفانہ کلام” ہی قرار دیں گے کہ ہم نے اکثر موصوف کو استاد کی قدر ہی کرتے دیکھا ہے۔ ہم پاکستانیوں کی ایک ادا ہے کہ بعض اوقات ہم ’’کہتے دھی کو ہیں مگر سناتے بہو کو ہیں‘‘۔ جانے چھٹی ساتویں اور آٹھویں حس یہ کیوں کہہ رہی ہے کہ فاضل وفاقی وزیر نے وزیروں اور وائس چانسلرز کو ڈکیت کہا ہی نہیں ہے، گر کہا ہے تو میری سماعتوں کو یقین کیوں نہیں آرہا؟
درج بالا سطور لکھنے کے بعد میں نے ٹی وی آن کیا تو معزز وفاقی وزیر کی اساتذہ اور وائس چانسلرز سے معذرت اور اسپیکر سے “ڈکیت” لفظ کو حذف کرنے کی خبر سنی۔ پس اس کالم کے ابتدائیہ کو قبل از معذرت کی واردات سمجھ لیجئے اور اگلے صریر خامہ کو بعد از معذرت کے ضمن میں شمار کر لیجئے۔قصہ مختصر،راقم ان لوگوں میں شامل تھا جس نے محترم وزیر کی شیریں مقالی اور خوش الحانی سنتے ہی معذرت کا مطالبہ کردیا جوآن ریکارڈ ہے۔ لیکن ہمارے اس مطالبے کو بےشمار پروفیسروں نے گھاس بھی نہ ڈالی، بلکہ ہماری مذمت اور مرمت کر ڈالی کہ منسٹر صاحب نے ایسا کیا غلط کہہ دیا، انہوں نے تو وائس چانسلرز ہی کو کہا ہے۔ اس پر پروفیسروں پر بہت پیار آیا ، بے چارے کتنے سادے ہیں، لیکن ان کی سادگی پر میں جنابِ میر ہی کا حوالہ دے سکتا ہوں ، اور میرے پاس کچھ نہیں: “میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب …. اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں”
سچ تو یہ ہے ان پروفیسروں کی اکثریت نے خبر پوری سنی نہ پڑھی۔ ان سنی پر چل نکلے، ہم نے جب عرض کیا کہ سرکار صرف وائس چانسلرز ہی کو نہیں قبلہ وزیر نے اساتذہ کو بھی خوب رگیدا ہے، اس پر بھی انہیں تسلی تھی اور یہ کہہ کر دل کا رانجھا راضی کئے ہوئے تھے کہ گیہُوں کے ساتھ گُھن پستا ہے۔ یہ کالم میں خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے گیسٹ ہاؤس میں سپرد قلم کر رہا ہوں، آج صبح میں متذکرہ یونیورسٹی کے ایک سیمینار میں تھا تو ایک پروفیسر نے سوال کیا آپ خواجہ آصف کے بیان پر کیا کہتے ہیں۔ میں نے فوری جواب دیا کہ مذمت ، لیکن میں نےیہ اِن پروفیسر صاحب سے بھی پوچھا کہ کیا آپ نے پوری تقریر سنی ہے ،تو ان کا جواب بھی تھا کہ نہیں۔ جب پروفیسرز اس طرح سنی ان سنی کردینے کے عادی ہوں گے ہوں تو پھر بقول شعیب بن عزیز: ’’ اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں… اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں!‘‘
بہرحال وہ صاحب جو اس سے قبل تخت نشیں تھے ، ڈاکو ڈاکو ، پکارنا ان کا بھی ذوق تھا ، اور شوق شوق میں انہوں نے اپنے مخالفین کا نام ہی ڈاکو ڈاکو رکھ دیا۔ پھر یہاں بھی ہوا یہ کہ: ’’ رانجھا رانجھا کر دی نی میں ، آپے رانجھا ہوئی….سدّو نی مینوں دھیدو رانجھا ، ہیر نہ آکھو کوئی (بلھے شاہ) ۔
ساری باتیں اپنی جگہ ، اہم بات یہ ہے کہ لیڈر شپ کو احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے، جو پہلے تخت نشیں تھے ،گر وہ احتیاط کا دامن نہ چھوڑتے تو آج بھی حکمران ہوتے، رسوا ہوتے نہ تحریک انصاف جیسی مقبول پارٹی پارہ پارہ ہوتی۔ ہماری نجی محفلوں ، عام جلسوں اور اسمبلی فلور کی بات میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ دراصل اسمبلی فلور اور پارلیمنٹ ہی کی اہمیت کی بات کرتے کرتے جنابِ وزیر پٹری سے اتر گئے، خوشی کی بات یہ کہ دو تین دن ہی میں معذرت کرکے بڑا پن بھی برقرار رکھا اور بےاحتیاطی کو بھی سابقین کی طرح دامن گیر نہ رہنے دیا۔ میں تو زیادہ ڈر گیا تھا جب انہوں نے تقریر فرماتے فرماتے وفاقی وزیر ِتعلیم کو مخاطب کیا ، تو میں سمجھا شاید وہ رانا تنویر حسین کیلئے بھی کوئی سچ بولنےجا رہے ہیں۔ شکر ہے انہوں نے جذبات کی رو میں بہہ کر وزیر تعلیم سے جڑی ہوئی کسی تعلیم کا پول نہیں کھول دیا کیونکہ ایک اندھیرا چراغ تلے بھی ہوتا ہے جسے اکثر پارلیمانی آنکھ بھی نہیں دیکھتی اور عوامی آنکھ بھی فراموش کر دیتی ہے، اور خود چراغ یا چراغ دین بھی نظرانداز کردیتا ہے۔ چراغ دین دیکھے یا نہ دیکھے مجھے امید ہے پارلیمانی امور سے آشنا اور وفاقی وزیر مرتضیٰ جاوید عباسی تو دیکھ رہے ہوں گے!
خیر، اگرچہ وزیر صاحب نے معذرت کر ہی لی ہے تو ہمیں اتنا کہنےکی پھر بھی اجازت دے ہی دیجئے کہ مکالمہ کھل گیا، اور مکالمہ نگاری جب لب پر یا کوچہ و بازار میں آجاتی ہے تو پھر بازگشت کا راستہ کوئی دیوار روک سکتی ہے نہ ……..!
آخر وزیر نے اقتدار کے بینچوں پر کھڑے ہو کر اپوزیشن کی طرح کی بے بسی والی تقریر کی ہی کیوں ؟ بے خودی میں جو آپ کے منہ کچھ نکل ہی گیا ہے تو بےگناہ وائس چانسلرز اور اساتذہ جو گلوبل ویلیج میں رسوا ہوئے سو ہوئے انہیں احسان جعفری کے لفظوں میں : ’’ناکردہ گناہوں کی سزا موت ملی ہے…. پھر کردہ گناہوں کی سزا کیوں نہیں دیتے ؟‘‘ کرم فرماؤں کی سیریز اور سیریل کچھ یوں ہے کہ سرچ کمیٹی آپ حکمرانوں کی قلم دان جن کو سونپتی ہے ان کے سنڈیکیٹ میں آپ کے سیاستدانوں کا انبار، بیوروکریسی بےشمار، ایچ ای سی کے علاوہ سر پر پروچانسلر وزیر کے روپ میں اور چانسلر گورنر کے روپ میں ہوتے ہیں پھر یہ چراغ تلے اندھیرا اور چراغ دین والا معاملہ کیوں؟ خواجہ صاحب میں آپ کے “ساتھ” ہوں مگر کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو، ایچ ای سی پاکستان سے مرکزی وزارتِ تعلیم کی طرف منہ کر کے کہے “خواجہ آصف کے ڈکیت حاضر ہوں! “

اپنا تبصرہ بھیجیں