میاں نواز شریف سے ایک ملاقات

طے پایا تھا کہ افطار مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں کرنے کے بعد اوبرائے ہوٹل میں میاں صاحب سے کھانےپر ملاقات ہو گی۔میں نے اور سردار محمد یوسف نے افطاری حرم نبوی میں ہی کی۔چوہدری اعجاز کھٹانہ اور ملک ندیم کوہستانی بھی ساتھ تھے۔
یہ بھی دنیا میں ایک معجزہ ہے، حرم ِنبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حرم مکی میں لاکھوں لوگ افطاری کرتے ہیں۔جس کا اہتمام خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ان کی حکومت کی طرف سے ہوتا ہے۔ایک پیکٹ جس میں کھجور، دہی ،بن اور پانی ہوتا ہے۔جو ہر روزہ دار کے سامنے پہنچایا جاتا ہے۔اس کے علاوہ مخیر حضرات بھی اہتمام کرتے ہیں۔مسجد نبوی کے وسیع و عریض صحن میں قسم قسم کے کھانے بھی ہوتے ہیں۔اور میزبان لوگوں کو پکڑ پکڑ کر اپنے دسترخوان تک لے کر جاتے ہیں۔ اس سارے عمل کا اوج کمال یہ ہے کہ اذان اور اقامت تک یہ سب کچھ سمیٹ دیا جاتا ہے۔اور پورے حرم میں کھجور کی ایک گٹھلی بھی نظر نہیں آتی۔اس عمل کی دنیا میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔
نماز اور افطاری کے بعد ہم ہوٹل اوبرائے پہنچے جہاں پر میاں صاحب شاہی مہمان کی حیثیت سے ٹھہرے ہوئے تھے۔سعودی عرب دوستوں کا دوست ہے۔میاں صاحب کو نہ صرف شاہی پروٹوکول حاصل ہے بلکہ وہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات بھی کرچکے ہیں۔کہا گیا کہ میاں صاحب کو عید کیلئے سیکورٹی نہیں دی گئی۔تو جو حکومت انھیں لاکھوں کے مجمع میں سیکورٹی دے سکتی ہے وہ ہزاروں میں کیوں نہیں دے سکتی۔
یادش بخیر میاں صاحب پاکستان کے واحد وزیراعظم ہیں جو گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصہ ہو چکا،رمضان کا آخری عشرہ مدینہ منورہ میں گزارتے ہیںاور ان کا قیام اوبرائے ہوٹل میں ہی ہوتا ہے۔یہ قسمت اور نصیب کا معاملہ ہے۔
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے
یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔
ماننا پڑے گا کہ میاں محمد نواز شریف پر قسمت مہربان ہے۔پنجاب کی وزارت خزانہ سے لے کر پاکستان کے سب سے بڑے عہدے تک پہنچے۔ہر دفعہ غیر مناسب طریقے سے ہٹائے گئے۔
ایک دفعہ اٹھاون ٹو بی،ایک دفعہ پرویز مشرفی مارشل لا اور 2017ء میں عدالتی کو (coup) کے نتیجے میں ان کو مسند اقتدار سے ہٹایا گیا۔پرویز مشرف رجیم نے جو مقدمے بنائے اس سے منظر نامہ بڑا عجیب بنتا تھا۔لیکن پھر میاں صاحب کی قسمت نے یاوری کی اور پاکستان اور میاں صاحب کے دیرینہ دوست سعودی عرب نے کردار ادا کیا اور ان کو جدہ لے گیا۔یوں ارض حرمین میںیہ جلاوطنی بھی باعث رحمت بن گئی۔2013 ء سے 2017 ء تک ایک تاریخی دور رہا لیکن پھر عدالت کا سہارا لے کر میاں صاحب کو رخصت کر دیا گیا۔اس دفعہ جھوٹ ،فریب اور شدید ترین پروپیگنڈہ اپنی انتہا کو پہنچا۔ سرکار کی سرپرستی میں ڈھنڈورا پیٹنے کے باوجود ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔آج بھی وہ بغیر اطلاع کے پاکستان کے کسی بھی شہر پہنچ جائیں تو منٹوں میں ہزاروں لوگ اکٹھے ہو جائیںاور باوجود ملک کی خراب معاشی صورت حال اور بحران کے ،عوام میاں کا ساتھ دیں گے۔ میاں صاحب کے بعد ان کی جماعت میں اگر کوئی ہے تو وہ مریم نواز شریف ہیں۔جنہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر کے اپنے آپ کو منوایا ہےاور منواتی چلی جا رہی ہیں۔
میاں صاحب عوام کے آدمی ہیں۔میں لفٹ میں پیچھے رہ گیا۔میاں صاحب رکے رہے اور بار بار سعودی سیکورٹی کو کہا کہ ان کو آنے دیں۔دسترخوان بھی ان کی وسعت ظرفی کا آئینہ دار تھا۔زیادہ تر فیملی کے لوگ تھے۔
اسحاق ڈار صاحب ان کے ساتھ بیٹھے ۔اسحاق ڈار توپوں کی زد میں ہیں۔حالانکہ وہ بھرپور محنت کر رہے ہیں۔دو ماہ قبل ان سے نشست ہوئی تھی۔تب پتہ چلا کہ خزانہ کے بہت سے اہم اداروں میں تعیناتیاں بھی مکمل نہیں تھیںاور وہ پوری تن دہی سے اپنا کام کر رہے ہیں۔
مریم نوازشریف بھی خواتین کی طرف موجود تھیں۔ان سے کھانے کے بعد علیک سلیک ہوئی۔میڈیا کے کردار سمیت بات چیت ہوئی۔
لاہور سے سلمان غنی،نعیم بٹ تھے۔میاں عبدالشکور سیالکوٹ والے بھی تھے۔جنید صفدر کھانے کی بجائے متحرک رہے۔اور ایک دو غالبا ًانڈونیشین مہمانوں کو لا کر میاں صاحب سے مصافحہ کروایا،اور مہمانوں کی ہی دیکھ بھال کرتے رہے۔میرے دوست اعظم خان نے میاں صاحب کے نیب ٹرائل کی پوری کہانی اپنی کتاب’’ایک اور وزیر اعظم‘‘میں سمو دی ہے۔یہ کتاب بھی میں نے میاں صاحب کو پیش کی۔اس ٹرائل کی چیزیں بھی واضح ہو کر سامنے آ گئی ہیں۔یہ ہی وہ موقع تھا جب میاں صاحب نے کہا کہ وہ انقلابی ہو گئے ہیں۔اور جس عزم اور حوصلے کے ساتھ انھوں نے جیل کاٹی اس سے ثابت ہوا کہ ان میں بہت تبدیلیاں آئی ہیں۔ورنہ عمران خان تو جیل سے بچنے کیلئے ہر حربہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔
میاں صاحب پر سنجیدگی طاری ہےاور فکر مندی بھی اس میں شامل ہے۔میاں صاحب کا درست خیال تھا کہ پی ڈی ایم کو فوری الیکشن میں چلے جانا چاہیے تھا ۔لیکن پیپلز پارٹی جے یو آئی اور باجوہ صاحب اس کے حق میں نہیں تھے۔اور نتیجہ صاف ظاہر ہے۔
2017ء میں جب سینیٹر ڈاکٹر حافظ عبدالکریم وفاقی وزیر مواصلات بنے تو ان کے ساتھ معتمد خاص کے طور پر میں نے بہت کچھ دیکھا۔سب سے بڑی وزارت کا وزیر ایک درویش منش انسان کو لگا دیا۔جو پورے عرصہ میں کسی ٹھیکیدار کو ملا تک نہیں۔موٹر ویز اور سی پیک پاکستان کا کرشماتی منصوبہ تھا۔اسلام آباد سے لاہور موٹر وے جب بننے جا رہی تھی تب وہ ایک خواب تھا۔367 کلومیٹرطویل موٹر وے نے بہت کچھ بدل دیا۔لیکن آج موٹر ویز کی لمبائی 2567 کلومیٹر تک جا پہنچی ہے۔اور اس کا سہرا میاں صاحب کے سر ہے۔
سی پیک پر کام کرنے والی سب سے بڑی کمپنی زیڈ کے بی کے مالک ہمارے دوست حاجی ظاہر خان کے پاس ایک دفعہ میں اور جواد بھائی بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا کہ’’ میاں صاحب یا ان کی فیملی نے آپ سے کوئی فائدہ اٹھایا ،تب حاجی صاحب گویا ہوئے کہ کہ میں حرم میں قسم کھانے کو تیار ہوں کہ میں نے ایک روپیہ بھی نہیں دیا اور نہ کسی نے مجھ سے مانگا۔‘‘اسی طرح ساڑھے چار سو ارب والی وزارت جہاں میں آخری سرے پر بیٹھا تھا ایک فرد بھی نہیں ملا جس نے کہا ہو کہ میاں صاحب نے کبھی ہم سے کچھ مانگا ہے۔
ہماری خوش بختی کہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم سے ہماری اچھی یاد اللہ تھی ،انھوں نے کئی دفعہ مجھ سے کہا کہ میاں محمد نواز شریف نے اس وقت جرات اور دلیری کا مظاہرہ کیا اور کسی دھمکی کو خاطر میں نہ لائے اور ملک وقوم کی خاطر ایٹمی دھماکے کر دیے۔
عمران خان نے تو کوئی راز نہ چھوڑا ، افواج پاکستان اور پریمیر ایجنسی کے سربراہان کے نام لے لے کر نجی مجالس کے راز بیان کیے اور کیے جا رہا ہے۔میاں محمد نواز شریف کے سینے میں بڑے بڑے راز ہیں۔کارگل سے لے کے عدالتی کُو تک،ان کی تاریخی کردار کشی کی گئی لیکن ملک کے سابق وزیراعظم رہنے والے اور حلف لینے والے میاں صاحب نے رازوں کو سینے میں ہی رہنے دیا

اپنا تبصرہ بھیجیں