راشد لنگڑیال چراغ جلانا چاہتے ہیں

راشد لنگڑیال ایک دیہاتی آدمی ہیں، اس وقت وفاقی سیکریٹری ہیں۔ انہوں نے بہت چھوٹی عمر میں پاکستان کا بڑا امتحان پاس کیا۔ وہ سول سروس کے طاقتور گروپ میں شامل ہو گئے جسے عرفِ عام میں ڈی ایم جی یعنی پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کہا جاتا ہے ۔ آج کے یہ ذہین ترین وفاقی سیکریٹری منڈی بہائوالدین کے ایک گاؤں میں بچپن گزار کر گورنمنٹ کالج لاہور پہنچے تو ہم جیسے خاک نشینوں سے واسطہ پڑا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے دنوں میں راشد لنگڑیال ایک اسمارٹ نوجوان تھا ، پنجابی اور اردو کا یہ زبردست شاعر اس زمانے میں بھی تھوڑا زیادہ حساس تھا۔ وہ اس زمانے میں بھی کئی بار سوچوں کے سمندر سے ہوکر آتا۔ کئی بار سوچیں اس کے لئے بھنور بن جاتیں ، پھر وہ بھنور سے کنارے لگتا ، وہ زندگی میں کبھی بھی گردابوں سے نہیں ڈرا بلکہ مشکلات اور امتحانات کو عبور کرنے کا قائل رہا۔ اب اس کے بالوں میں چاندی اتر چکی ہے ۔ اب وہ پھرتیلے جسم کا مالک بھی نہیں مگر اس کی سوچیں آج بھی کسی پرانے محور و مرکز کے گرد گھومتی ہیں۔ دوران سروس مشکل مراحل بھی آئے مگر وہ ہر بار یہی سوچتا رہا کہ
خوف آیا نہیں سانپوں کے گھنے جنگل میں
مجھ کو محفوظ مری ماں کی دعا نے رکھا
وہ ذہین ترین تو ہے ہی، ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ بے باک اور اصول پسند بھی ہے ،اس کی اس بے باکی اور اصول پسندی کو کئی لوگ پسند نہیں کرتے مگر وہ اصولوں پہ کھڑا ہے ۔ ملک سے محبت کرتا ہے ، اپنی دھرتی کی اندھیر نگریوں میں چراغ جلانے کا خواہاں ہے ۔
کچھ دن پہلے اس سے ملاقات ہوئی ، ہم دونوں اکیلے تھے، پرانی یادوں کو تازہ کرتے رہے پھر پاکستان کی تنزلیوں کا تذکرہ ہوا تو اس نے کہا کہ’’ہمارے ملک کے بنیادی ڈھانچے میں گڑبڑ ہے ، نظام کی یہ گڑبڑ ہمارے بہت سے ذہین نوجوانوں کو پیچھے دھکیل دیتی ہے۔ آپ اس بات سے اندازہ لگائیے کہ ایک ہی وقت میں جب امریکہ، برطانیہ ، جاپان ، چین، ہندوستان اور پاکستان سمیت ہر ملک میں جو ایک لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں تو ان میں سے دس ذہین ترین ہوتے ہیں۔ ان کا ذہنی سطح کا معیار ( آئی کیو لیول) عام بچوں سے زیادہ ہوتا ہے ۔ عام طور پر لوگوں کا آئی کیو لیول 70 سے 130 تک ہوتا ہے جبکہ ذہین ترین لوگوں کا آئی کیو لیول 130 سے اوپر ہوتا ہے یا آپ یوں سمجھ لیجئے ہر ملک میں پیدا ہوئے 1000 بچوں میں سے دو چار ذہین ترین ہوتے ہیں ، ان کا آئی کیو لیول زیادہ ہوتا ہے ، میں انہیں ریڈ ڈاٹ کہتا ہوں جبکہ جن کا آئی کیو لیول عمومی ہوتا ہے انہیں بلیو ڈاٹ کہتا ہوں۔ اب امریکہ ،برطانیہ، جاپان اور پاکستان کے درمیان فرق یہ ہے کہ وہاں پیدا ہونے والے تمام ریڈ ڈاٹ بچوں کو تعلیمی سہولتیں میسر آتی ہیں ۔ ان کی صحت اور خوراک کی ضروریات بھی ان کی ریاستیں پوری کرتی ہیں ، اس لئے وہاں ترقی ہو رہی ہے اور وہاں کے نظام میں تمام بڑے عہدوں پر ریڈ ڈاٹ موجود ہیں جبکہ ہمارے ہاں ریڈ ڈاٹ بچوں میں سے صرف دو چار ہی کو یہ سہولت میسر آتی ہے ۔ ناجانے ہمارے ہاں کوئی ریڈ ڈاٹ بچہ کسی بھٹہ مزدور کے ہاں پیدا ہو گیا ہو ، معلوم نہیں کہ کوئی ریڈ ڈاٹ بچہ کسی کسان یا مزدور کے گھر پیدا ہو گیا ہو یا کسی ریڈ ڈاٹ بچے کو بچپن ہی میں یتیمی مل گئی ہو، سو ہمارے ہاں ریڈ ڈاٹ بچے نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں بہت کم تعداد میں ریڈ ڈاٹ بچے تعلیم حاصل کر پاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں عمدہ تعلیمی سہولتیں بلیو ڈاٹ بچوں کیلئے ہیں ، یہ بلیو ڈاٹ بچے اپنے والدین اور خاندان کی دولت کے طفیل اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کر کے قومی زندگی کے دھارے میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں سول سروس سمیت تمام اداروں میں ان ہی بلیو ڈاٹ بچوں کا راج ہے۔ آپ نے زندگی میں کئی مرتبہ یہ دیکھا ہو گا کہ کسی نامور وکیل کا کوئی منشی اتنا تیز ہو گا کہ وہ سارا کیس تیار کرلے گا ، بعض فیصلے لکھنے والوں کے ریڈرز ہی تو شاندار ڈرافٹنگ کرتے ہیں ۔ ہماری سول سروس میں کئی افسران کے اسٹینوگرافرزانتہائی اعلیٰ معیار کی ڈرافٹنگ کرتے ہیں ، اس ڈرافٹنگ سے ان کی ذہانت بول رہی ہوتی ہے ، وہ ڈرافٹنگ ان کے ریڈ ڈاٹ ہونے کی گواہی دے رہی ہوتی ہے۔ میں خود جب خانیوال میں ڈپٹی کمشنر تھا تو وہاں ایک سپریم ٹینڈنٹ بڑے شاندار لیٹرز تیار کرتا تھا ، اس کا فائل ورک بھی کمال کا تھا ،وہ ریڈ ڈاٹ تھا۔ اسی طرح آپ کو کئی دفاتر میں ایسے کلرک نظر آئیں گے جو ریڈ ڈاٹ ہیں مگر غریبی انہیں بلیو ڈاٹ کے دائرے میں لے آئی، افسوس ہمارے ہاں ایسے بچے بھی ہیں جنہیں اسکول دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوتا ،ہم ریڈ ڈاٹ کا کام بلیو ڈاٹ سے لے رہے ہیں ۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی ریڈ ڈاٹ کا کام بلیو ڈاٹ سے لیا جاتا ہے وہاں معاشرے ترقی نہیں کرتے ، تنزلی کی طرف جاتے ہیں‘‘۔
یہ باتیں کر کے راشد محمود لنگڑیال خاموش ہوئے تو میں نے عرض کیا، اس اندھیر نگری میں ہمیں ریڈ ڈاٹ بچوں کا کیسے پتہ چلے گا؟۔ وہ کہیں پرانی یادوں میں کھو گئے اور پھر گویا ہوئے’’یہ بہت آسان کام ہے ، پرائمری اسکولوں ہی میں پتہ چل جاتا ہے کہ کون ریڈ ڈاٹ ہے اور کون بلیو ڈاٹ ؟۔ ہمارے گاؤں میں ہمارے ساتھ ایک لڑکا اکرم پڑھتا تھا، اکرم ریڈ ڈاٹ تھا۔ میں تو گورنمنٹ کالج لاہور چلا گیا مگر اکرم کے راستے میں غربت حائل ہو گئی۔ اس نے پرائیویٹ طور پر بی اے کیا۔ بی اے کے امتحان میں اس کے 2نمبر مجھ سے زیادہ آئے مگر اسے اچھے تعلیمی ادارے نہ مل سکے، مجھے اس کا دکھ ہے، میں ایسے ہی ریڈ ڈاٹ بچوںکیلئے دو اسکول بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہوں ۔ جہاں صرف ریڈ ڈاٹ بچے پڑھیں گے ، میں پورے ملک سے ریڈ ڈاٹ بچوں کو ڈھونڈوں گا ، انہیں تمام سہولتوں کے ساتھ پڑھاؤں گا اور انہیں قومی دھارے میں شامل کروں گا ، آپ کو یہی پاکستان ترقی کرتا نظر آئے گا کیونکہ پھر اس ملک کے اداروں میں ریڈ ڈاٹ کا راج ہوگا اور جہاں ریڈ ڈاٹ کا راج ہوتا ہے وہاں جانور بھی بھوکے نہیں مرتے‘‘۔
مجھے خوشی ہوئی کہ میرا دوست دھرتی کے ان بچوں کا سوچ رہا ہے جو ذہانت لے کر پیدا ہوتے ہیں ، میرا دوست انہی روشن دماغوں کے ذریعے ملک کی تقدیر بدلنا چاہتا ہے ، اندھیر نگری کی تاریک راہوں میں چراغ جلانا چاہتا ہے ۔ آخر میں راشد محمود لنگڑیال کا شعر پیش خدمت ہےکہ

آتش دید سے دل روز جھلس جاتاہے
شوق ایسا کہ ہتھیلی پہ دیا رکھتے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں