کھوکھرا پار-مونا باؤ-جودھ پور

واہگہ کے علاوہ پاکستان سے ایک اور ریلوے لائن بھی ہندوستان جاتی ہے بہت کم لوگوں کو اس کا علم ہوگا ۔آج اسی لائن کا قصہ چھیڑتے ہیں ۔

کھو کھرا پار -مونا باؤ-
جودھ پور ۔ تھر ایکسپریس

کھوکھرا پار-مونا باؤ-جودھ پور

برہا کی ماری اور عمر سومرو کی قید میں صحرائے تھر کی خوبصورت ماروی کی ترجمانی شاہ عبدالطیف بھٹائی نے یوں کی تھی ۔
رات بھی مینہڑا وٹھا ۔۔۔
(رات بھی میرے دیس میں بارش برسی ہے اور اگر میں اپنے وطن کی یاد میں دم توڑ دوں تو میرا جسدِ خاکی میرے گھر پہنچا دینا ، تاکہ میں صحرا کی ریت میں سکون سے سو جاؤں ۔”

یہ لائن کوٹری کے پاس حیدر آباد سے چلتی ہے اور میر پور خاص سے ہوتے ہوئے پاکستان کے سرحدی قصبے کھوکھرا پار جا نکلتی ہے۔ کیونکہ یہ سندھ کے عظیم صحرائی علاقے تھر سے گزرتی ہے اس لیے اس لائن پر چلنے والی گاڑی کو” تھر ایکسپریس“ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ کھوکھرا پار کے قریب یہ ریل گاڑی سرحد عبور کر کے ہندوستانی قصبے مونا باؤ سے ہوتی ہوئی جودھ پور کو نکل جاتی تھی۔


یہ برانچ لائن سب سے پہلے 1892ء میں حیدرآباد سے جودھ پور تک بنائی گئی تھی۔ پہلے مرحلے میں حیدرآباد سے عمر کوٹ تک براڈ گیج پٹری بچھائی گئی تھی جس کو بالآخر ستر کلومیٹر دور کھوکھرا پار سے ہوتے ہوئے ہندوستان کے اس شہر یعنی جودھ پور تک پہنچایا جانا تھا۔ حیدرآباد سے عمر کوٹ لائن کی تکمیل کے بعد اس پر گاڑیوں کی آمد و رفت شروع ہو گئی تھی۔
اب بڑا مسئلہ یہ تھا کہ جودھ پور کی طرف سے جو طویل لائن آ رہی تھی اور جسے حیدرآباد تک لے جانا مقصود تھا وہ میٹر گیج کی تھی جب کہ اس طرف یعنی سندھ کے بڑے علاقے میں چوڑے یعنی براڈ گیج کی پٹری بچھی ہوئی تھی۔ لہٰذا 1901ء میں انگریزوں نے ایک بار پھر عمر کوٹ سے حیدرآباد تک کی براڈ گیج لائن کو اکھاڑ کر اسے میٹر گیج سے تبدیل کر دیا۔ یوں جودھ پور سے آنے والی گاڑی اب بغیر کسی تکنیکی رکاوٹ کے براہ راست حیدر آباد اسٹیشن پر ہی آ کر رکنے لگی کیوں کہ اب پٹری کے سائز کا کوئی مسئلہ نہیں رہا تھا۔ تاہم یہ لائن اب صرف اسی مقصد کے لیے ہی رہ گئی تھی کیوں کہ سندھ میں براڈ گیج پر چلنے والی گاڑیاں اب اس طرف نہیں آسکتی تھیں۔
ا یک طے شدہ معاہدے کے مطابق یہ گاڑی 1965ء تک باقاعدگی سے پاکستان اور ہندوستان کے شہروں یعنی حیدرآباد اور جودھ پور کے درمیان اسی میٹر گیج پٹری پر چلتی رہی تھی۔ اس لیے حیدرآباد پہنچ کر مسافروں کو ہر حال میں اُتر کر گاڑی تبدیل کرنا پڑتی تھی کیوں کہ اس سے پہلے پاکستان ریلوے کا سارا نظام چوڑی پٹری یعنی براڈ گیج پر ہی چلتا تھا۔
پھر بھی اس ریلوے لائن سے لوگوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اس نے نہ صرف شروع میں دونوں اطراف کے مہاجروں کے آنے جانے کے لیے ایک بڑی سہولت فراہم کی تھی بلکہ بعد میں بھی لوگ اپنے بچھڑے ہوئے خاندانوں سے ملنے کی خاطر اسی راستے سے ہی سفر کرتے رہے۔ خصوصاً کراچی اور سندھ میں بس جانے والے مہاجر خاندانوں کے لیے تو یہ گاڑی ایک نعمت عظمیٰ سے کم نہیں تھی اور اسی کے ذریعے انھوں نے ہندوستان میں اپنے رشتے داروں سے مسلسل رابطہ رکھا ہوا تھا۔

کھوکھرا پار-مونا باؤ-جودھ پور
1965ء کی جنگ شروع ہوئی اور اس صحرائی علاقے میں بھی شدید لڑائی ہوئی ، جس کی وجہ سے یہ لائن مکمل طور پر بند ہوگئی اور ایسی بند ہوئی کہ پھر کھلی ہی نہیں۔ لائن کی اسی بندش کے دوران ایک بار پھر دونوں ممالک آمنے سامنے آن کھڑے ہوئے اور پھر1971ء کی جنگ بھی شروع گئی ، جو ابتداء میں تو مشرقی پاکستان تک ہی محدود تھی مگر پھر مغربی پاکستان بھی اس کی لپیٹ میں آ گیا۔ ویسے تو یہ لڑائی زیادہ تر شمال کی طرف یعنی کشمیر کی سرحدوں پر ہو رہی تھی ،تاہم جب اس کا پَھیلاؤ ہوا تو تھرپارکر کا یہ علاقہ بھی اس سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا۔ اور چپکے سے یہاں کے صحراؤں میں بھی جنگ آن پہنچی اور پھر اس علاقے میں بھی خوب گھمسان کے رن پڑے۔
جنگ کے دوران پاکستان میں تھر کے کچھ علاقوں پر ہندوستانی افواج کا قبضہ ہو گیا اور ہندوستان کی کچھ زمین بھی پاکستانیوں کے زیر تسلط آگئی ، یوں یہ سارا سرحدی علاقہ ہی اُلٹ پلٹ ہو کر رہ گیا۔ نگر پارکر قصبہ اور قریبی علاقے میں ریل کی اس پٹری کے کچھ حصوں پر ہندوستان کی افواج آ کر بیٹھ گئی تھیں۔ ویسے بھی 1965ء کی جنگ کے دوران یہ کھوکھرا پار والی لائن تو بالکل ہی بند ہی ہوگئی تھی۔ ہر چند کہ مقبوضہ علاقے اگلے سال ہی پاکستان کو واپس مل گئے تھے لیکن اس سے تھر ایکسپریس پر کوئی اثرنہ پڑا اور وہ بدستور بند ہی رہی۔
اب چونکہ اس ریل گاڑی کے دوبارہ کھُلنے کا کوئی امکان نہیں تھا اس لیے پاکستان ریلوے نے سوچا کہ یہ ایک بہترین موقع ہے کہ حیدرآباد ، میرپور خاص اور کھوکھرا پار کی سو برس پرانی اس میٹر گیج پٹری کو اکھاڑ کر وہاں ایک بار پھر اس کی جگہ براڈ گیج لائن بچھا کر اسے ساری پاکستان ریلوے کے یکساں نظام سے ملا دیا جائے۔ غرض 2006ء میں یہ کام مکمل ہو گیا اور یہ پٹری اب پاکستانی ریلوے لائن میں ضم ہو گئی تھی۔گویا اب پاکستان کی اس سرحد تک پہنچنے کے لیے سارے پاکستان کے جاری معیار کے مطابق پٹری تیار تھی۔
پاکستان ہی کی طرح ہندوستان بھی ان دنوں اپنی میٹر گیج پٹریوں کو بتدریج براڈ گیج میں تبدیل کر رہا تھا ، اسی منصوبے کے تحت انھوں نے اپنی طرف کی جودھ پور سے پاکستانی سرحد کے قریب واقع اپنے قصبے مونا باؤ تک آنے والی پٹری کو بھی 2003ء میں چوڑے گیج کی پٹری میں بدل دیا تھا۔ گویا اب اگر دونوں ملکوں کے آپسی تعلقات بہتر ہو جاتے تو تکنیکی طور پر ایک بار پھرگاڑی کو جودھ پور سے حیدرآباد، بلکہ کراچی تک بغیر کسی رکاوٹ کے چلایا جا سکتا تھا ، کیونکہ پٹری کی چوڑائی کا اب کوئی مسئلہ نہیں رہا تھا۔
کراچی اور سندھ کی مقامی عوام کی مسلسل گزارشات کے نتیجے میں پاکستانی حکومت نے ہندوستان سے یہ لائن ایک مرتبہ پھر کھولنے کی استدعا کی جو منظور کر لی گئی اور پھر دونوں ملکوں میں ایک نیا معاہدہ طے پایا اور یوں جدائی کے ٹھیک اکتالیس برس بعد 2006ء میں اس لائن پر گاڑیوں کی آمد و رفت کو دوبارہ شروع کرنے کے احکامات جاری ہوگئے۔ اس معاہدے کی روشنی میں اس سروس کو بحال کرنے کی لیے دونوں ملکوں کی سرحدوں پر کچھ نئے انتظامات کیے گئے جن کی تفصیل کچھ
یوں تھی:
کھوکھراپار، جو پہلے پاکستان کا آخری سرحدی ریلوے اسٹیشن ہوا کرتا تھا اور جہاں سے ہندوستان کو جانے اور وہاں سے آنے والے مسافروں کی سفری دستاویزات کا معائنہ ہوتا تھا ، کو ختم کر کے یہاں سے آٹھ کلومیٹر مزید آگے ، عین پاکستان اور ہندوستان کی سرحد پر ایک نیا اسٹیشن “زیرو پوائنٹ” کے نام سے قائم کیا گیا ، جس کا بعد میں نام بدل کر سندھ میں محبت کی مشہور رومانوی داستان “عمر ماروی” کی خوبصورت اور بہادر ہیروئین ماروی کے نام پر “ماروی اسٹیشن” رکھ دیا گیا تھا۔ یہ وہی ماروی ہے جس کی پردیس میں اداسی اور دکھ بارے شاہ عبدالطیف بھٹائی کا خوبصورت شعر اس باب کے شروع میں تحریر ہوا ہے۔ ماروی کے وچھوڑے کے دکھ درد کو بیان کرنے کے لیے انھوں نے ایک اور خوبصورت شعر بھی لکھا تھا :
آئی مند ملہار کھنبا کندیس کپڑا
(بسنت کی رُت لوٹ آئی ہے، میں بسنتی جوڑا پہنوں گی)
یہ گاڑی ہفتے میں صرف ایک دن چلتی تھی ۔پاکستان کی طرف سے گئی ہوئی گاڑی اب کھوکھرا پار اسٹیشن پر رکے بغیر مسافروں کو زیرو پوائنٹ یعنی ماروی اسٹیشن پر لا کر اُتار دیتی تھی۔ یہاں سے ہندوستان کا شہر مونا باؤ سامنے ہی نظر آتا ہے۔ یہاں پر پاکستانی حکام مسافروں کی امیگریشن کرتے ہیں مکمل ہونے کے بعد پاکستانی گاڑی مسافروں کو دوبارہ سوار کرا کے سرحد عبور کرتی اور مونا باؤ کے اسٹیشن پر جا رکتی تھی جہاں ہندوستانی حکام ایک بار پھر مسافروں کی سفری دستاویزات کی جانچ پڑتال کرتے تھے اور وہاں سے فارغ ہو کر یہ گاڑی جودھ پور تک چلی جاتی تھی ۔ اسی طرح ہندوستان سے بھیجی گئی گاڑی ان ہی مراحل سے گزر کر حیدر آباد اور پھر کراچی تک آ جاتی تھی ۔ ان گاڑیوں میں معاہدے کے مطابق باری باری دونوں ملکوں کے انجن اور ریک لگتے تھے۔ ان انتظامات کے تحت بہت عرصے تک یہ گاڑی کامیابی سے چلتی رہی۔ بعد ازاں ہندوستان کے دباؤ کے تحت معاہدے میں ایک بار پھر ترمیم کی گئی اور یہ طے پایا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ملک میں اپنے انجن اور بوگیاں بھیجنے کے بجائے اسے صرف اپنے علاقے میں ہی استعمال کریں گے۔
اس نئے انتظام کے مطابق پاکستانی مسافر اب پاکستان ریلوے کی گاڑی ”تھر ایکسپریس“ میں سوار ہو کر ماروی اسٹیشن یعنی زیرو پوائنٹ تک آتے ہیں اور یہاں سے امیگریشن مکمل ہونے کے بعد وہ ہندوستان ریلوے کی طرف سے وہاں پہنچی ہوئی گاڑی ”تھر لنک پسنجر“ میں سوار ہو کر مونا باؤ میں اپنا امیگریشن مکمل کروا کر جودھ پور کی طرف روانہ ہو جاتے تھے۔ بالکل اسی طرح ”تھر لنک پسنجر؛ ہندوستان سے آئے ہوئے مسافروں کو ماروی اسٹیشن پر امیگریشن کے حوالے کرکے واپسی سفر اختیار کرتی جہاں سے فارغ ہو کر وہ پہلے سے وہاں انتظار کرتی ہوئی پاکستان ریلوے کی “تھر ایکسپریس” میں سوار ہو کر اپنی منزل مقصود کی طرف چل پڑتے تھے جس کا آخری پڑاؤ کراچی تھا۔
ہندوستانی علاقے میں یہ گاڑی یعنی” تھر لنک پسنجر “ جودھ پورکے قریبی قصبے”بھگت کی کوٹھی” نامی اسٹیشن سے چلتی ہے اور راجستھان، کے خوفناک اور خشک صحراؤں میں سے پانچ گھنٹے کا طویل سفر کرکے مونا باؤ پہنچتی ہے۔
9 اگست 2019ء کو واہگہ کی سمجھوتہ ایکسپریس کے ساتھ ساتھ ” تھر ایکسپریس “ کو بھی بند کر دیا گیا۔ اس بار اس کی بندش کو لوگوں نے زیادہ محسوس بھی نہیں کیا تھا کیونکہ ستر سال گزر جانے کے بعد پیچھے ہندوستان میں رہنے والے رشتے داروں کے آپس کے روابط اب برائے نام ہی رہ گئے تھے۔

پچھلے وقتوں کے بڑے بزرگ ایک ایک کرکے رخصت ہوئے اور جو رہ بھی گئے تھے انھوں نے اب ایک دوسرے کے بغیر بھی جینا سیکھ لیا تھا۔ نئی آنے والی نسلیں ایک دوسرے کو جانتی تک بھی نہیں تھیں ، وہ اب اپنے پاکستان چلے جانے یا ہندوستان میں رہ جانے والے عزیزوں اور رشتے داروں سے ملنے کے بارے میں زیادہ پرجوش بھی نہ تھے اور نہ ہی ان میں محبت کا وہ جذبہ باقی رہا تھا جو بچھڑے ہوؤں کو ایک دوسرے کے قریب لاتا تھا۔ سب اپنے اپنے مقام پر خوش اور مطمئن تھے۔ خاندانوں کی یہ تقسیم اب واضح اور حتمی تھی اور نئی نسل کو اب اس سے کوئی دلچسپی بھی نہ رہی تھی ۔ گو اس ہجرت کو بنیاد بنا کر سیاست کا گھناؤنا کھیل ابھی تک کھیلا جاتا ہے ۔
دوسری طرف سندھ میں مقیم مقامی ہندو خاندانوں کو سرحد پر سخت نگرانی اور پابندیوں کے باعث ہندوستان میں اپنی رشتے داریاں نبھانا مشکل ہو رہا تھا ، اور وہ بھی اب آپس میں کم کم ہی ملتے ہیں۔ ان کا ہندوستان میں واقع اپنے مذہبی مقامات پر آنا جانا بھی بہت کم ہوگیا تھا۔ہندوستان میں بھی ان کو کچھ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ پچھلے دنوں کچھ پاکستانی ہندو ترک وطن کر کے وہاں گئے تھے اور پھر وہاں اپنے ساتھ ناروا سلوک کی بناء پر اپنے وطن لوٹ آئے ۔ نقل مکانی کے اس عمل کے دوران وہاں ان کے ایک درجن سے زیادہ لوگ پراسرا ر طور پر مارےبھی گئے تھے اور ہندوستانی پولیس قاتلوں کا سراغ نہ لگا سکی تھی ۔ ظاہر ہے اس کے پیچھے وہی شدت پسند لوگ ہونگے جن کو ان کا وہاں آنا گوارا نہیں تھا۔
ویسے بھی بندش سے ذرا پہلے اس گاڑی میں برائے نام ہی مسافر ہوا کرتے تھے ، ان میں سے کچھ تو اپنے رشتے داروں سے ملنے ہندوستان جاتے تھے اور کچھ سندھ کی ہندو برادری کے لوگ سرحد کے اس پار اپنے مقدس مُقامات کی زیارت کرنے یا مذہبی تہواروں میں شرکت کے لیے جانا ضروری سمجھتے تھے۔

کھوکھرا پار-مونا باؤ-جودھ پور
ہندوستان کی طرف سے آنے والی ان کی گاڑی” تھر لنک پیسنجر” میں بھی سوائے ان کی بارڈر سکیورٹی فورس کے اہلکاروں اور مقامی مسافروں کے، خال خال ہی کوئی سیاح نظر آتا ہے جو اپنے ٹریول وی لاگ کے ذریعے اپنے ناظرین کو ہندوستان اور پاکستان کی سرحد دکھاتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اس گاڑی کو چلا کر اب محض خانہ پُری ہی کی جاتی تھی۔ مسافروں کی تعداد اتنی کم تھی کہ اس کی جگہ بس بھی چلائی جا سکتی تھی جس طرح لاہور سے دہلی بسیں چلتی ہیں ، جو فی الحال تو بند ہیں ۔
.

ریل کی جادو نگری
بک ہوم پبلشرز لاھور

اپنا تبصرہ بھیجیں