طبقاتی تقسیم اور گروہ بندی کے خلاف جہاد

سورۃ النسا1ء آیت 

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللہَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ۞

(اے انسانو!) اپنے اس پروردگار سے ڈرو۔ جس نے تمہیں ایک متنفس سے پیدا کیا اور اس کا جوڑا بھی اسی سے (اس کی جنس سے) پیدا کیا اور پھر انہی دونوں سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلا دیا۔ اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو۔ اور رشتہ قرابت کے بارے میں بھی ڈرو۔ بے شک اللہ تعالیٰ تم پر حاضر و ناظر ہے۔ ۔

🔸 تفسیر آیت🔸

یا اٴَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذی خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ واحِدَة
اس سورہ کی پہلی آیت میں تمام انسانی افراد سے خطاب ہے کیونکہ یہ سورہ ایسے مسائل پر مشتمل ہے

جن کے تمام لوگ اپنی زندگی میں محتاج ہیں ۔اس کے بعد تقویٰ اور پرہیز گاری کی دعوت ہے

جو کسی معاشرے کو صحیح و سالم اور صحت مند بنانے کے پروگراموں کی بنیاد ہے ۔

ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی ، میراث کی عادلانہ تقسیم ، یتیموں کی حمایت ، گھریلو حقوق کی حفاظت

اور اسی طرح کے منصوبے ایسے ہیں جو تقویٰ اور پرہیزگاری کی بلندی کو نہیں چھو سکتے ۔

اسی لئے اس سورت کو جو ایسے تمام مسائل پر محیط ہے تقویٰ کی دعوت سے شروع کیا گیا ہے

۔وہ خدا تعالیٰ جو انسان کے تمام اعمال کو دیکھنے والا اور ان کی دیکھ بھال کرنے والا ہے

اس سورہ کو تقویٰ کی دعوت کے ساتھ شروع کرتا ہے ۔وہ خدا جو انسان کے تمام اعمال کا ناظر

ہے تعارف کے طور پر انسان کی ایک ایسی صفت کی طرف اشارہ کرتا ہے جو انسانی معاشرے کی

وحدت و یگانگی کی جڑ ہے ۔الَّذی خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ واحِدَة : وہ خدا جس نے تمام انسانوں

کو ایک انسان سے پیدا کیا ۔ اس بنا پر وہ خیالی اور وہمی امتیاز و افتخار جو ہر ایک جماعت

نے اپنے لئے گھڑ رکھے ہیں مثلاً امتیازات نسلی ، لسانی ،علاقائی ، قبائلی اور اس قسم کے دوسرے امتیاز جو

آج کل دنیا کی سوسائٹی میں ہزاروں خرابیوں کا سبب بنے ہوئے ہیں ، ایک اسلامی معاشرے میں نہیں پائے

جانے چاہیئں کیونکہ ان سب کا سرچشمہ ایک ہی ہے ۔یہ سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں

اور ایک ہی گوہر سے پیدا ہوئے ہیں ۔ اس امر کو پیش نظر رکھا جائے

 حضرت رسول اکرمؐ کےزمانے کا معاشرہ

حضرت رسول اکرمؐ کےزمانے کا معاشرہ چونکہ سب کا سب قبائلی تھا تو اس بات کی اہمیت خوب ظاہر ہو جاتی ہے ۔

اس قسم کی تعبیرات قرآن حکیم کے دوسرے مقامات میں بھی ہیں جن کی طرف اپنے اپنے مقام پر اشارہ

کیا جائے گا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ”نفس واحدہ“ سے کون مراد ہے ؟ اس سے مراد

ایک فردِ شخص ہے یا ایک فرد نوعی یعنی (مذکر کی جنس)۔ اس میں شک نہیں

کہ اس تعبیر کا ظاہری مفہوم تو واحد فرد کے بارے میں ہے اور یہ

اس پہلے انسان کی طرف اشارہ ہے جسے قرآن آدم کے نام سے آج کے انسانوں کے باپ کے

طور پر متعارف کراتا ہے ۔ بنی آدم کی تعبیر جو متعدد آیاتِ قرآنی میں کی گئی ہے

وہ بھی اسی طرف اشارہ ہے اور یہ احتمال کہ اس سے مراد وحدت نوعی ہے بعید معلوم ہوتا ہے ۔

و خلق منھا زوجھا” یہ جملہ بظاہر یہ بتاتا ہے کہ حضرت آدمؑ کی زوجہ محترمہ اُنہی سے پیدا”

ہوئی ہیں بعض مفسرین اس سے یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت آدم (ع) کی بیوی حوّا حضرت آدمؑ

کے بدن سے پیدا ہوئی ہیں ۔ کچھ معتبر روایتیں یہ بھی کہتی ہیں کہ حضرت حوّا آدم (ع) کی پسلیوں

سے پیدا ہوئی ہیں اور اس پر آیت کو گواہ ٹھہرایا گیا ہے ۔ (تورات کے سفر تکوین کی دوسری فصل

بھی ان ہی معنوں کی وضاحت کرتی ہے ) لیکن قرآن کی دوسری آیات کی طرف توجہ کرنے سے اس آیت

کی تفسیر کے بارے میں شک و شبہ دور ہو جاتا ہے اور معلوم ہو جاتا ہے کہ اس سے

مراد یہ ہے کہ خدا وند عالم نے حضرت آدم (ع) کی بیوی کو انہی کی جنس (جنسِ بشر )

سے پیدا کیا۔ چنانچہ سورہٴ روم کی آیت ۲۱ میں ہے : “ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیھا”

قدرت خدا کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری بیویاں تمہاری ہی جنس میں سے

پیدا کی ہیں تاکہ تمہیں ان کی وجہ سے سکون حاصل ہو ۔

سورہٴ نحل کی آیت ۷۲ میں فرماتا ہے :”اللہ جعل لکم من انفسکم ازواجا” خدا نے تمہاری بیویاں تمہاری جنس میں سے بنائی ہیں ۔

واضح ہو کہ ان دونوں آیتوں میں تمہاری بیویوں کو تم میں سے قرار دیا کے یہ معنی ہیں

کہ انہیں جنس سے قرار دیا نہ کہ تمہارے اعضائے بدن میں سے اور اس روایت کے مطابق

جو تفسیر عیاشی میں حضرت امام محمدباقر (ع) سے منقول ہے حضرت حوّا کو حضرت آدم (ع) کی پسلیوں میں

سے خلقت کو غلط قرار دیا گیا ہے ۔ نیز یہ وضاحت کی گئی ہے کہ حضرت حوا حضرت آدم (ع) کی بچی ہوئی مٹی سے پیدا ہوئی ہیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں