بڑا امام بارگاہ

نواب آصف الدولہ کا تعمیر کردہ (بڑا امام بارگاہ) ابھی بھی لکھنؤ کی شان ہے۔
یہ شہرہ آفاق امام بارگاہ 1790 ء میں ایک کروڑ کی لاگت سے تیار ہوا۔اس کا نقشہ حافظ کفایت اللہ مہندس نے تیار کیا ۔جنہیں کچھ لوگوں نے دہلوی اور بعض دیگر نے شاہ جہاں پوری لکھا ہے)اس کا وسطی ہال 303 فٹ لمبا،53 فٹ چوڑا اور 63 فٹ اونچا ہے۔اس کی چھت دنیا کی اعلیٰ ترین چھتوں میں سے ہے جس میں لوہے لکڑی کے بغیر اتنی بڑی چھت کی ڈاٹ جوڑی گئی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ اس امام بارگاہ کی حدود میں ایک ضعیفہ کا مکان بھی آگیا تھا ۔(جس کا نام لاڈو شاخن بیان ہوا ہے۔)لیکن وہ مکان دینے پر راضی نہ تھی ۔چونکہ نوابین اودھ رعایا پرور تھے لہٰذا اس پر کسی طرح کی زور زبردستی نہیں کی گئی ۔خود نواب آصف الدولہ اس کے پاس جاتے ہیں اور وہ چند شرائط کے ساتھ اپنا مکان دینے پر آمادہ ہوجاتی ہے ۔اس کی پہلی شرط تھی کہ اسے کسی اور جگہ دوسرا مکان دیا جائے اور دوسری اہم شرط یہ تھی کہ امام بارگاہ میں اس کے نام کا تعزیہ رکھا جائے۔نواب نے یہ شرائط منظور کر لیں ۔اُس کا تعزیہ داہنی طرف کی صحنچی میں خود رکھوایا جو آج بھی اسی مقام پر رکھا جاتا ہے ۔آج ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی لکھنؤ میں پہلی محرم کو آصفی امام بارگاہ سے اٹھنے والی شاہی ضریح کے ساتھ ساتھ اس ضعیفہ کے نام کی بھی ضریح اٹھائی جاتی ہے ۔جو رومی گیٹ سے ہوتے ہوئے چھوٹے امام امام بارگاہ پہنچتی ہے۔

 امام بارگاہ

مذکورہ امام بارگاہ کی تکمیل کے بعد نواب آصف الدولہ ،پانچ لاکھ روپیہ سالانہ اس کی آرائش پر خرچ کرتے تھے ۔سینکڑوں کی تعداد میں سونے چاندی کے چھوٹے بڑے تعزیے بنوائے۔آپ نے سفید اور رنگین جھاڑ فانوس سے اسے زینت بخشی ،یہاں تک کہ دالانوں کی چھتیں اور فرش شیشہ آلات سے پٹے پڑے تھے ۔جب زائرین کو اندر جگہ نہ ملتی تو وہ باہر سے ہی چبوترے پر بیٹھ کر عزاداری کرتے۔اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی ڈاکٹر بلین جب ولایت جانے لگے تو نواب صاحب نے ایک سبز اور سرخ تعزیہ ،جھاڑوں نیز شیشہ آلات کی ان سے فرمائش کی۔جس کی قیمت ایک لاکھ روپئے طے ہوئی مگر ایک تعزیہ ملا اور دوسرے کے آنے سے قبل 1797 ء میں نواب آصف الدولہ دار بقا کی جانب کوچ کر گئے ۔آپ کو اسی امام بارگاہ میں سپرد لحدکیا گیا ۔

 امام بارگاہ

1822 ء میں شاہ غازی الدین حیدر کے عہد میں ایک پادری ہیبر بشپ بسلسلہ سیاحت لکھنؤ آیا ،اس نے اس امام بارگاہ کی بابت لکھا:”اس پاک و طاہر عمارت میں بکثرت جھاڑ آویزاں تھے،جن کی چمک دمک سے آنکھیں خیرہ ہوتی تھیں،جو جھاڑ بہت وزنی اور لٹکانے کے قابل نہ تھیں وہ فرش پر نظر آئیں ۔ان جگمگاتے فرشی جھاڑوں کے نیچے کا حصہ بہت گیردار تھا ۔ان کے بیچ بیچ میں نقرئی مرصع کار روضے ،تعزیے جو 108 فٹ بلند ہوں گے رکھے گئے تھے ۔ہیبر نے اس امام بارگاہ کے وضع کو مشرقی گوئتھک کا قطع قرار دیا ہے۔”

 امام بارگاہ

نواب آصف الدولہ. بہ نفس نفیس ایام عزا میں امام بارگاہ کی مجالس میں شریک ہوتے ۔عشرہ محرم میں ملّا محمد خطا مرثیہ پڑھتے تھے ۔نواب صاحب کی عزاداری کا خاص اہتمام سرکار سید الشہداء ع اور شہدائے کربلا علیہم السلام سے آپ کی خاص الفت ومحبت کا بیانگر ہے ۔جسے آپ نے اپنے والد(شجاع الدولہ)اور والدہ(بہو بیگم)سے ورثہ میں پایا تھا۔نواب آصف الدولہ کے سبب شیعہ علماء نے لکھنؤ کا رخ کیا ۔ جن میں علامہ سید دلدار علی نقوی کا نام نامی سر فہرست ہے ۔جن سے خود نواب صاحب بیحد متأثر تھے۔علامہ دلدارعلی غفرانمآب کو آصفی امام بارگاہ سے متصل آصفی مسجد کا امام جمعہ وجماعت مقرر کیا گیا ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں