آرمی چیف سے چیف جسٹس تک – را جہ شاہد رشید

چند دن قبل شمالی وزیر ستان میں سکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں دو دہشت گرد ہلاک ہوئے‘ آئی ایس پی آر کے مطابق ’’دہشتگردوں سے بڑی تعداد میں اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کر لیا گیا ہے ۔ پاک فوج نے دہشتگردی کے مکمل خاتمے کے عزم کا اظہار کیا ہے‘ واضح رہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 87 ہزار سے زائد شہادتیں ہو چکی ہیں‘‘۔ اس جنگ میں معصوم شہریوں‘ مسلح افواج اور دیگر سول آرمڈ فورسز و پولیس نے قربانیاں دی ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب ِ عضب کوئی آسان کھیل نہیں تھا‘ یہ دہکتی آگ کے شعلوں میں سے گزرنے کے مترادف تھا جس میں پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے بے شمار اور بے مثال قربانیاں دی ہیں‘ ردالفساد نیزے برچھی کی نوک پر کھڑا ہونے کے برابر ہے۔ صد افسوس و ماتم کہ میری سوھنی دھرتی دیس سے ایسے بد نما نعرے کیوں نمودار ہوئے ہیں کہ ’’یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے‘ دل خون کے آنسو روتا ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ایسے بیانیے بنانا اور نعرے دینا اپنے پائوں پہ کلہاڑی مارنے اور جس شاخ پہ کھڑے ہو اسی کو کاٹنے والی بات ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ ہمارا مستقبل کیا ہو گا۔ ابھی 16 دسمبر 2014؁ء کے سانحہ اے پی ایس کے غم کیا کم تھے کہ خیبر پختونخواہ کے صوبائی دارالحکومت پشاور ‘ پھولوں کے اس شہر میں دہشت گردوں نے ایک بار پھر قیامت برپا کر دی‘ پولیس لائنز جیسے حساس ترین علاقے کی مسجد میں نمازِ ظہر کے دوران خود کش حملہ آور نے خود کو اُڑا کر یہ ثابت کیا ہے کہ دہشت گردوں کے سینے میں کوئی دل ہوتا ہے نہ دین و دھرم۔ میرے خیال میں آج ہمیں ایک اور ضرب ِ عضب‘ نیشنل ایکشن پلان اور رد الفساد ایسے آپریشن کی ضروت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پوری قوم کی دعائیں نیک تمنائیں اپنی بہادر افواج کے سنگ سنگ ہوں‘ سب دلوں کی یہ صدا ہو کہ پاک فوج کو سلام‘ آج ایک بار پھر 1965 ؁ء جیسے جذبوں اور ولولوں کی ضرورت ہے سیاسی و عسکری قیادت کا مورال تبھی بلند رہے گا جب ملک و قوم کی اُمنگیں اور محبتیں اپنے اداروں کے ساتھ ساتھ رہیں گی تو پھر یقینا جیسے ماضی میں جنرل راحیل شریف کی قیادت میں ہمیں دہشت گردی کی لعنت سے نجات حاصل ہوئی تھی ایسے ہی سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر کی سربراہی میں بھی ضرور کامرانی قدم چومے گی۔ تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے کہا کہ PM کی جانب سے طلب کی گئی کسی اے پی سی میں ہم شرکت نہیں کریں گے‘ میں جس اسد عمر کو جانتا ہوں مجھے ان سے اُمید نہیں تھی کہ وہ ایسے واقعات و معاملات کے ضمن میں ایسے بیانات دیں گے۔ پھر بجا فرمایا امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہ ’’سیاستدانوں کی باہمی لڑائیاں دہشت گردی کو ساز گار ماحول فراہم کرتی ہیں ‘ جلسوں جلوسوں میں اداروں پر انگلیاں اُٹھائی جاتی ہیں‘‘ اور پروفسر احسن اقبال واقعی عصرِ حاضر کے ارسطو ثابت ہوئے ہیں جنہوں نے فرمایا کہ ’’یہ وقت آپس میں لڑائیاں لڑنے کا نہیں ہے ‘ پاکستان کو درپیش تمام مسائل کے تناظر میں تمام سیاستدان اپنی اپنی پارٹی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر سوچیں اور موجودہ بحرانوں سے نکلنے کے لیے ایک ٹیم کے طور پر کام کریں کیونکہ پاکستان بہت مشکل میں ہے ۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ ہم بطور قوم متحد ہو کر دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکیں گے ‘ KPK پولیس پاکستان کی بہادر پولیس ہے۔ SPR کے مطابق ’’آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے گزشتہ دنوں پشاور پولیس لائنز دھماکے کی جگہ کا دورہ کیا‘ افسران و اہلکاروں سے ملاقات کی اور کے پی کے پولیس کی دہشت گردی کے خلا ف جنگ میں ان کی خدمات کو سراہا اور جان کی قربانی دینے والے شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا‘‘۔ ان حالات میں اہل سیاست و عسکریت کے آپس میں مل بیٹھنے کی اَشد ضرورت ہے اور اس حوالے سے تحریک انصاف اور بالخصوص عمران خان کی ’’میں نہ مانوں‘‘ کسی طور پہ بھی مناسب نہیں ہو سکتی۔ بلاشبہ عمران خان عہدِ دوراں میں ملکی و عالمی سطح پر پاکستان کے سب سے مقبول ترین لیڈر ہیں اور موصوف لاکھوں لوگوں کی آس ہیں اور اُمیدوں کا مرکز ہیں لیکن خدا جانے ان کی اس قدر ضد و ہٹ دھرمی کہ ان کی اپنی ہی ایک ’’عمرانیات‘‘ ہے جو ہمیشہ سے ہی ’’وکھری‘‘ ہی رہی ہے‘ معلوم نہیں کس شے کا ’’نشہ‘‘ ہے جو انھیں کہیں بھی ٹکنے نہیں دیتا‘ عقل یہ سمجھنے سے قاصر ہے‘ اللہ ہی جانے کون بشر ہے۔ عمران خان اور اُن کی پارٹی یہ دعوے بہت کرتے ہیں کہ ہم عدلیہ کا احترام کرنے والے ہیں لیکن کاش وہ چیف جسٹس آف پاکستان کی یہ بات سن کر اسے سمجھ بھی لیں اور مان بھی لیں ۔ گزشتہ دنوں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’کوئی بھی حکومت ہو اس کی مدد کے حوالے سے عدلیہ کا ایک اہم کردار ہوتا ہے‘ چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں مسلح افواج کا پاکستان کے دفاع اور سویلین حکومت کی مدد کے لیے آئینی کردار طے ہے‘ اپنے فرائض کی انجام دہی میں تمام صفوں کے سپاہیوں نے ملک کی خدمت میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے‘‘۔ الغرض آج کے ان مشکل ترین حالات میں صاحبان سیاست کی خدمت میں بصد ادب عرض ہے کہ وہ سب آپس میں مل بیٹھیں اور ملک و قوم کا سوچیں دہشت گردی‘ معاشی بد حالی اور اس کمر توڑ مہنگائی کے طوفان کو لگام ڈالیں ورنہ تمہاری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں اور بصد تکریم و احترام سپہ سالار کی خدمت میں عرض ہے کہ آپ سب کو ایک میز پر بٹھائیں کیوں کہ قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے‘ خدارا آپ ملک و قوم کو اس دلدل سے نکالیں‘ ہر پاکستانی بول رہا ہے کہ پاک فوج زندہ باد‘ پاکستان پائندہ باد ۔

آرمی چیف سے چیف جسٹس تک – را جہ شاہد رشید” ایک تبصرہ

  1. You’re truly a good webmaster. This site loading velocity is amazing. It seems that you are doing any distinctive trick. Furthermore, the contents are masterpiece. you’ve performed a excellent task in this matter! Similar here: sklep internetowy and also here: E-commerce

اپنا تبصرہ بھیجیں