یکم مئی ۔۔۔۔مزدوروں کا عالمی دن!!

یکم مئی مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر جہاں ایک طرف ہر سال سرکاری اور پرائیویٹ سطح پر ملک بھر میںتعطیل ہوتی ہے اور سیمینارز کا اہتمام کیا جاتا ہے،وہاں جلسے جلوسوں میں مزدوروں کے حقوق کیلئے آواز بلند کی جاتی ہے اور اس عزم کا اظہار کیا جاتا ہے کہ مزوروں کو درپیش مشکلات کو کم کرنے اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی راہ میں جو بھی رکاوٹیں ہیں انہیں دور کیا جائے گا ،ان نعروں ،وعدوں اور دعوﺅں کے ساتھ ون گزر جاتا ہے اور غروب آفتاب کے بعد جیسے ہی رات کی سیاہی چھاتی ہے تو مزدور کا مقدرپھرانہی تاریکیوں میں گم ہوجاتا ہے ۔ محض یکم مئی کو یوم مزدوراں منا لینے سے مزدوروں کے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مزدوروں کو ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ اور تعلیم صحت چھت اور روز گار کی ضمانت اور تحفظ کی ضرورت ہے ۔ یہاں مزدورمحنت کش اور کسان کی محنت کا پھل سرمایہ دار اور جاگیردار کھاتے ہیں ،المیہ یہ ہے کہ مزوروں اور کسانوں کے حقوق غصب کرنے والا ٹولہ ہی ان کی وکالت کی ڈرامہ بازی کرکے انہیں بار بار دھوکہ دیتا ہے ۔ہمارا اصل ہدف یہ ہے کہ محنت کشوں کی محنت کا پھل جس پر ان کے بچوں اور گھر والوں کا حق ہے کسی جاگیر دار اور وڈیر ے کو نہ کھانے دیا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ مزدوروں کے لئے اصلاحاتی پروگرام اور ان کے حقوق کے تحفظ کیلئے جامع منصوبہ بندی جماعت اسلامی نے روز اول سے اپنے منشور میں اولین ترجیح رکھی ہے ۔
آج جہاں مزدوروں کے حقوق سلب کرلئے گئے ہیں وہاں صورتحال یہ ہے کہ حکومتوں کے تمام تر دعوﺅں کے باوجود معیشت میں بہتری آنے کی بجائے مزیدابتری آئی ہے ،بجلی گیس اور تیل کی قیمتوں میں ہوشربااضافہ کردیا گیا ہے۔ اس وقت ملک میں سنگین سیاسی و معاشی بحران ہے جس کی وجہ سے کاروبار بند ہیں، کارخانے اور صنعتی یونٹ شدید دباﺅ کا شکار ہیں ،کارخانوں اور فیکٹریوں کو تالے لگ رہے ہیں ،ہزاروں مزدور بے روزگار ہورہے ہیں جس کے اثرات ان سے وابستہ خاندانوں اور زیر کفالت لاکھوں افراد پر پڑ رہے ہیں ،گزشتہ چند ماہ کے دوران لاکھوں سے زیادہ نوجوان حالات سے تنگ آکر ملک سے باہر بھاگ گئے ہیں ،لوگ قانونی و غیر قانونی طریقوں سے ملک چھوڑ رہے ہیں ۔کچھ لوگ دوسرے ممالک کی سرحد پر پکڑے جاتے ہیں اور پھر ساری عمر بیرونی جیلوں میں گزاردیتے ہیں ،کچھ سمندر میں ڈوب جاتے ہیں اور کچھ بارڈر فورسز کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں ۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہر شعبہ زندگی زبوں حالی کی تصویر بن چکا ہے ۔
آج گوادراور پسنی کے ہزاروں ماہی گیروں کی مشکلات مسلسل بڑھ رہی ہیں ۔ پاک چائنا اقتصادی راہداری بلا شبہ گیم چینجر اور خطے کی معاشی ترقی کیلئے ایک انقلابی منصوبہ ہے لیکن کیااس کا کوئی فائدہ غریب مزدور کو بھی پہنچے گا۔ضرورت تو اس بات کی ہے کہ کھانا سب سے پہلے ان لوگوں کو ملے جو بھوک سے نڈھال ہیں لیکن یہاں سب سے پہلے کھانے پر وہ ٹوٹ پڑتے ہیں جن کی پہلے ہی توندیں نکلی ہوئی ہیں۔
بلوچستان کے عوام کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کی پاداش میں جماعت اسلامی بلوچستان کے سیکرٹری جنرل اور مزدور رہنما مولانا ھدایت الرحمان گذشتہ کئی ماہ سے پابند سلاسل ہیں۔ عید کے موقع پر ان کا اور ان کے ساتھیوں کا حبس بے جا میں رہنا اس ملک میں عدلیہ کی آزادی پر سوالیہ نشان ہے۔قید بےگناہی میں تین ماہ گزرنے کے باوجود مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کی درخواست ضمانت کا سیشن عدالت سے مسترد ہونا افسوسناک ہے۔ ملک بھر میں صرف ایک سیاسی رہنما ہے، دباو¿ کی وجہ سے ان کی درخواست ضمانت قبول نہیں کی جارہی۔ عدلیہ کا یہ دوہرا کردار بلوچستان میں مزید احساس محرومی پیدا کررہا ہے ۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ماہی گیر ی کے شعبے سے 395000 افراد منسلک ہیں ۔ اتنا اہم شعبہ حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے زبوں حالی کا شکارہے۔ بظاہر وفاقی اور صوبائی سطح پر محکمہ فشریز کا ادارہ قائم ہے لیکن یہ محکمہ ماہی گیروں اور ماہی گیری کے تحفظ کے بجائے ماہی گیروں کیلئے مستقل درد سر بن چکا ہے اور ماہی گیر محکمہ فشریز کے اقدامات سے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ضرورت ہے کہ سمندری طوفانوں میں سمندر کے اند رجاںبحق ہونے والے ماہی گیروں کے بچوں کو مالی امداد فراہم کی جائے اور ان کے بچوں کی سرپرستی کی جائے۔ماہی گیروں کے روزگار کو مزید بہتر بنانے ، ماہی گیری کے آلات خریدنے کیلئے بلا سود قرضے فراہم کئے جائیں۔ وہ ماہی گیر جو غلطی سے کسی ملک میں سرحد پار چلے جاتے ہیں ان کے خاندان کی مالی امداد کی جائے اور ان کی رہائی کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ بینڈ سیزن ( جون ، جولائی ) میں ماہی گیروں کیلئے راشن وغیرہ کی مد میں سبسڈی کا اعلان کیا جائے۔ ماہی گیروں کی فلاح و بہبود کیلئے فشریز ویلفیئر بورڈ قائم کیا جائے ۔ ان ماہی گیروں کو گزارہ الاوئنس فراہم کریں جو ضعیف العمری یاکسی بیماری کی وجہ سے کام نہیں کر سکتے۔کشتی سازی کو صنعت کا درجہ دیا جائے ۔ کشتی سازوں کو جدید سہولیات فراہم کی جائیں اورا نکی سرپرستی کی جائے۔ ماہی گیروں کے بچوں کو مختلف محکموں کی آسامیوں کیلئے روزگار دینے کیلئے ایک کوٹہ مقرر کیا جائے ۔ مچھلی کے انڈوں کے موسم میں ماہی گیری پر مخصوص علاقوں کی بنیاد پر پابندی لگائی جائے۔ ماہی گیر ی شعبے کو ادارہ جاتی قرضے میسر نہیں اس سلسلے میں ماہی گیروں کیلئے علیحدہ فشریز ڈویلپمنٹ بنک قائم کئے جائیں جن کے ذریعے سے ماہی گیروں کو بلا سو د قرضے فراہم کئے جائیں ۔
ملک کے دیگر حصوں کی طرح جنوبی پنجاب بھی مسلسل عدم توجہی کا شکار ہے ۔جنوبی پنجاب کا بڑا حصہ زراعت پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ہر حکومت جنوبی پنجاب کے کسانوں کیلئے کسان پیکیج کا اعلان کرتی ہے مگر کسانوں کو درپیش اصل مسائل اور مشکلات کے حل کیلئے کوئی ٹھوس منصوبہ سامنے نہیں لاتی ۔کسان اور کاشتکار پانی ،کھاد اور زرعی ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے نئی فصلوں کی کاشت کیلئے سخت پریشان ہیں ،خاص طور پر جنوبی پنجاب کا کسان پانی کی بوند بوند کو ترس رہا ہے ۔وڈیروں اور جاگیر داروں نے کسان کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔کسان اپنے معصوم بچوں اور خواتین کے ساتھ دن بھر کھیتوں میں محنت کرتا ہے ،بنجر زمین کو قابل کاشت بنانے کیلئے وہ اپنا خون پسینہ ایک کردیتا ہے مگر حکومت کی طرف سے وہی زمینیں جاگیرداروں کے حوالے کردی جاتی ہیں اور کسان بےچارہ ساری زندگی غلامی اور بے بسی میں گزار دیتا ہے ، حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ بے زمین ہاریوں اور کاشتکاروں کو وہ زمینیں الاٹ کرنے کا اعلان کرتی جنہیں آباد کرنے کیلئے ان کی کئی نسلیں زمین کی خوراک بن گئی ہیں مگرکسی حکومت نے بھی اپنے وعدوں اور دعوﺅں کبھی عمل نہیں کیا ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں